نیم دانشوری کی سعی لاحصل – برزکوہی

377

نیم دانشوری کی سعی لاحصل

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

تنقید، بحث مباحثہ، سوال و اعتراض، انکار، نقطہ چینی اور مخالفت کبھی کبھار خوامخواہ دانشور بننے اور اپنے آپ کو خوامخواہ حقیقت پسند سمجھنے کی سعی لاحاصل بن جاتی ہے۔ اس خوامخواہ سوچ کے تناظر میں ہر سماج یا خاص طور پر ہماری نیم سیاسی سماج میں ہم بحثیت نیم سیاسی لوگ اب تک اس فرق سے نالاں ہیں کہ خود تنقید کیا ہے؟ اور اس کے علاوہ سوال، اعتراض، انکار، نقطہ چینی، بحث مباحثہ اور مخالفت کیا ہیں؟

ادب کی میدان سے سر اٹھانے والی تنقید، ادب سے ہوتے ہوئے سیاست کے میدان میں رائج ہوا اور سیاسی لوگوں نے اسے اپنایا، مگر نیم سیاسی لوگ یہ نہیں سمجھ سکے کہ تنقید خود ایک علم و فن، تحقیق اور تخلیق کے ساتھ ایک متبادل پروگرام، پالیسی اور حکمت عملی کا نام ہے یعنی تنقید برائے تعمیر ہر سطح پر اصولوں کا پابند خود اصولی ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر میں کہتا ہوں درد سر کے لیئے ڈسپرین کی گولی کا استعمال غلط اور نقصاندہ ہے، تو سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ میں یہ دلائل دینے کے قابل بنوں اور بتاسکوں کے ڈسپرین کی گولی کیسے غلط اور نقصان دہ ہے؟ وہ نقصانات کیا ہیں اور کیسے ہیں، اس نقصان کے بابت یہ میرا ذاتی رائے ہے یا اس بابت تحقیق ہوچکی ہے؟ اگر یہ سب کچھ جاننے سمجھنے کے باوجود میں ڈسپرین کو غلط اور نقصاندہ ثابت کر سکتا ہوں تو پھر ڈسپرین کے متبادل اور کیا گولی پیش کرسکتا ہوں؟ اگر میں کہتا ہوں پونسٹان کی گولی صحیح ہے تو وہ کیسے صحیح ہے؟ اس کے فائدے کیا ہیں؟ پھر وہ فائدہ کیسے اور کیوں ڈسپرین میں نہیں ہیں؟ ان دونوں کے فائدے اور نقصانات کے فرق کو لیکر کس حد تک ہمیں علم فارمیسی پر عبور حاصل ہے اور کس حد تک فارمیسی کا تجربہ ہے؟ یا پھر نہیں ہے اور صرف ادھر سے ادھر سے سنی باتیں میں دہرا رہا ہوں؟ یعنی سنی سنائی باتوں پر یقین کرکے دوسری جگہوں پر بغیر سوچے سمجھے اور غور کے، بغیر دلیل و منطق کے بنیاد پر صرف پیش کرنا، پھر ڈسپرین اور پونسٹان کی مثال کو لیکر پہلے یہ سمجھنا، یہ عمل خود کیا تنقید کی زمرے میں آتا ہے یا پھر اعتراض، نقطہ چینی یا مخالفت کے؟

جب بھی کسی چیز پر مکمل علم و تجربہ نہ ہو، اس پر تنقید کرنا خود علمی، شعوری اور اصولی بنیادوں پر نا ہی تنقید کے زمرے میں شمار ہوتا ہے اور نہ ہی سوال اٹھانے اور نہ ہی اکیڈمک بحث مباحثے کے حقیقی معیار پر اترتا ہے۔ اگر ہوتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ محض خود کو خوامخواہ دانشور سمجھنا اور حقیقت پسند گرداننا، اس کے علاوہ اکثر یہ رویئے ایسے سوچوں کی پشت پر موجود ہوتا ہے، جہاں حسد و بغض، سازش، بدنیتی، منافقت، عدم برداشت، ذاتی ضد اور ذاتی عناد ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ خاص طور پر تحریکوں اور جنگوں میں جب انسان خود اندر ہی اندر ٹکڑے ٹکڑے ہوکر الجھن، خوف، تھکاوٹ، مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہوکر کچھ کرنے اور ہمت کرنے کی سکت کو کھو دے، تو پھر اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے یعنی اپنی شکست، خوف، تھکاوٹ، بے ہمتی اور مایوسی کو تنقید کی آڑ میں اعتراض، انکار، مخالفت اور نقطہ چینی میں چھپانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔

مثال کے طور پر میں کوئی کام نہیں کرسکتا ہوں، مجھ میں اس کام کی ہمت اور صلاحیت نہیں ہے لیکن میں سیدھا سیدھا انکار کو مناسب نہیں سمجھتا ہوں، اپنے شان و شوکت کی خاطر پھر اس کام سے اعتراض انکار اور مخالفت کا سب سے آسان فارمولا تنقید کی آڑ میں خود کی بے ہمتی اور عدم صلاحیتی کو موردالزام ہونے سے بچانا۔

اگر میں سب سے پہلے اقوام، تحاریک، جنگوں، معاشروں، سماجوں، ادب اور نظریات پر پرمغز بحث و مباحثہ کرنے والے، سوال اٹھانے والے اور تنقید کرنے والے نقادوں، فلاسفروں، ادباء، شاعروں، دانشوروں اور صحافیوں کا مطالعہ کرتا ہوں، پھر اگر کچھ نہ کچھ سیکھ لیتا ہوں تو پھر یہ کبھی بھولنا نہیں چاہیئے کہ وہ خود کس طرح عظیم، تجربہ کار، باعلم، باصلاحیت اور باعمل تھے اور وہ خود کردار اور عمل کے حوالے سے کہاں پر کھڑے تھے؟ اور اپنے منطق اور دلیل سے لیس آراء اور خیالات کے کس طرح پابند تھے اور ان میں کتنی سنجیدگی تھی، پھر وہ تنقید، بحث و مباحثہ اور سوالات ضرور قابل قدر اور متاثر کن ہوتے ہیں، اگر انسان خود خالی خولی ہوکر کردار، عمل، ہمت، تجربے اور صلاحیتوں سے مکمل عاری ہو پھر جتنا بھی، جس حد تک خوبصورت آراء اور خیالات پیش کریں، بحث مباحثہ کریں، ان کا نہ ہی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی کوئی اثر ہوگا۔ شاید کچھ مدت تک انکے اثرات ہوں، مگر جلد بے اثر ثابت ہونگے، بلکہ دوسروں کے لیئے باعث درد سر اور بیزاری کا سبب ہونگے۔

ایک یونانی کہاوت ہے کہ “بغیر علم و دلیل کے تنقید کرنا اور اس سے اچھے نتیجے کی امید رکھنا ایسا ہے کہ اپنے دوست کے ماتھے پر بیٹھے ہوئے مکھی کو اڑانے کیلئے، تلوار سے اپنے دوست کا سر قلم کرنا۔”

اسی طرح کوئی بھی سوال، تنقید، رائے، خیال اور تصور پیش کرنے سے پہلے ضرور یہ سوچنا چاہیئے کہ جو میں پیش کرتا ہوں، وہ خود کیا ہے؟ خواہش، فرمائش، جائز یا نا جائز، ذہنی تخلیق یا ذہنی اختراع، تجربہ یا مشاھدہ یا پھر علم اور کس حد تک وہ قابل عمل اور قابل قبول ہیں؟ کیا میں جو سمجھتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں وہ مکمل صحیح ہے؟ کیا دوسرے جو سمجھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں، وہ مکمل غلط ہیں؟ وہ غلط میں صحیح کے فرق کو لیکر اور جان کر یہ خود ایک بڑا سوال ہے، میں کیسے صحیح ہوں وہ کیسے صحیح ہے؟ اس چیز کو پرکھنا اور سمجھنا خود ایک علم و تجربہ ہے، پھر کیا وہ موجود ہے یا نہیں؟ یا صرف ادھر ادھر سے سنا، بس وہی بولا، نہ سر کا پتہ نہ دم کا پتہ؟

سیاست خود کیا ہے؟ اور سیاسی بحث و مباحثہ کیا ہے؟ حالات، ریاست، حکومت، تحریک، قوم اور جنگ کے بارے میں بات کرنا یا گفتگو کرنا کیا سیاسی بحث مباحثے کے زمرے میں شمار ہوتا ہے؟ پھر ان چیزوں پر گفتگو اور باتیں کرنا کس زمرے میں شمار ہوتا ہے؟ کیا ان میں فرق نہیں ہے؟ اگر ہے تو پھر کیسے؟ اگر نہیں تو کیسے؟

تاریخ، خاص طور پر تحریکی تاریخ، ہمیں ہر مقام پر یہ بھی بتاتی ہے کہ جب بھی کسی نقطے، موضوع، معاملے اور مسئلے پر بحث و مباحثے کی نوبت آتی ہے تو بحث و مباحثے میں شرکت سے قبل وہ صاحب رائے، ہفتوں، مہینوں، دن و رات اس قابل بحث، نقطہ و موضوع کے بارے میں علمی بنیادوں پر سرجوڑ کر جستجو و تحقیق کرتے تھے تاکہ کوئی مدلل اور علمی نتیجہ اخذ ہو مگر اس حوالے سے ہمارے جیسا نیم سیاسی سماج کہاں پر کھڑا ہے؟ کیا صرف رٹے بازی، سنی سنائی باتوں کے علاوہ کچھ ہے؟ مجھے کم سے کم نظر نہیں آتا ہے۔

تحقیق اور تخلیق کے رجحانات اس وقت آگے بڑھینگے جب ہم بحث و مباحثے کو وقت پاسی اور ذہنی عیاشی کے بجائے کچھ نہ کچھ نتیجہ اخذ کرنے اور ان پر عمل کرنے کا ایک ذریعہ اور وسیلہ سمجھیں، وگرنہ سیاسی بحث و مباحثے کی آڑ میں صرف باتیں اور مغز ماری وقت کے ضیاع کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔

آج قوم جس مقام پر کھڑا ہے، وقت بہت کم ہے، حالات دن بدن بہت مشکل ہوتے جارہے ہیں۔ اس حالت میں وقت پاسی اور ذہنی عیاشی کا میرے خیال میں ایک فیصد گنجائش نہیں بلکہ سنجیدگی و عمل اور کردار نبھانے کی ضرورت ہے، ساتھ ساتھ پارٹی، تنظیم، تحریک میں اصولی تنقید، اکیڈمک و سیاسی بحث مباحثہ انتہائی ضروری ہے، مگر پہلے خود تنقید اور بحث و مباحثے کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔