قومی تشخص کی بحالی ۔ الیاس بلوچ

262

قومی تشخص کی بحالی

الیاس بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

قوم کسی بھی شخص کی شناخت ہوتی ہے، جو ہر انسان کا فخرمانا جاتا ہے۔ شاید ہر کوئی، جوکسی بھی قوم سےتعلق رکھتاہو اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت سمجھتاہوگا. بشرطیکہ اس شخص میں قومی جذبے کےساتھ ساتھ قوم سے تعلقی کا احساس ہو. میں بحیثیت بلوچ اپنے آپکو دنیا کے سب سے خوش قسمت لوگوں میں سے ایک محسوس کرتا ہوں کہ میری شناخت اس قوم سے ہے، جسکی دنیامیں صدیوں پرانی ایک عظیم تاریخ ہے، جسکی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہےاور ہاں بلوچ قوم کی قربانیوں کا اعتراف دشمن بھی کرچکا ہے۔

بلوچ راج کے عظیم تاریخ کو پاکستان جیسے ناکام ریاست (جسکو ریاست سمجھنا بھی درست نہیں) نقصان پہنچانا چاہتا ہے اور وہ اسکواپنی سب سےبڑی کامیابی تصورکرتا ہے، لیکن ہزاروں بلوچ جوان، بزرگ و ماں بہنوں نے قومی آزادی اور راجی آجوئی کی خاطر اپنی زندگیوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، آج ہزاروں کی تعداد میں ٹارچرسیلوں میں بند دشمن کے ہاتھوں تشدد، غیر انسانی اذیت اور ظلم و جبر کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس قومی جذبے اور نوجوانوں اور ماں و بہنوں کی لازوال قربانیوں اور جدوجہد نے قابض دشمن کے ان ناجائز مقاصد کو مکمل ناکام بنایا ہے، جسکی واضح مثال آج اس کی دیوالیہ پن کا شکار کھوکھلی معیشت ہے. جس کی پوری معیشت بلوچ قوم کے خلاف جنگ لڑنے میں خرچ ہو رہا ہے، لیکن قومی جذبہ اور ولولے سے بھرپور بلوچ قومی جہدکاروں کے سامنے آج دشمن اپنی پوری طاقت لگانے کے باوجود ناکام ہو چکا ہے اوراسکی ناکامی اور شرمندگی کا اعتراف اسکے اپنےاعلیٰ عہدوں پہ فائز فوجی افسران بارہا کر چُکے ہیں، جو بلوچ جنگِ آزادی کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔

دوسری طرف بلوچ قوم اپنی قومی بقاء اور سرزمین کی مکمل آزادی کیلئے بھرپور جدوجہد کررہا ہے اور دشمن کے ہراس عمل کو ناکام بنا رہاہے جو بلوچ ریاست کی بحالی میں رکاوٹ بنا ہے. یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب اور جہاں بھی قومی آزادی اور قومی بقاء کی خاطر قوموں نے جنگ کیا ہے اور اپنی آزادی کی بحالی کیلئے سرگرم عمل رہے ہیں، تو کچھ قومی غداروں کی ایک لمبی فہرست جو کچھ پیسوں اور لالچ کی خاطر قومی آزادی اور جہدکاروں کے خلاف مخبری کرنے کو راضی ہو جاتے ہیں، تحریک میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کی ہیں۔ ہوبہو آج بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد اور قومی جہدکاروں کے خلاف بھی کچھ سرکاری مخبر جنہوں نے اپنا ایمان، اپنا ضمیر، اپنی قومیت و شناخت کچھ مراعات کی خاطر بیچ دیا ہے، قومی تحریک کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ جو کسی حدتک دشمن کیلئے فائدہ مند رہے ہیں۔ ریاست ایسے لوگوں کو پیسے دے کر قومی تحریک کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں لگا ہے، جو تحریک کے خلاف ایک منظم انداز میں برسر پیکار ہیں، لیکن ان جیسے مراعات پرست لوگوں کیلئے ایک آزاد وطن اور ایک آزاد قوم میں کوئی جگہ نہیں ہوگا ان کا انجام بھی وہی ہوگا، جو بنگالیوں نے اپنے قومی غداروں کو دیا تھا۔ ایک دن آئے گا ان کو بھی قوم سرعام سزا دیگا۔ جو آج اپنے قوم کے خلاف محض کچھ وقتی مفادات کی خاطر برسرپیکار ہیں۔

قومی بقاء کیلئے جہدکرنے والے ہزاروں نوجوانوں ماں بہنوں اور بزرگوں کی قربانیاں ایک دن ضرور رنگ لائیں گی، جنہوں نے قومی غلامی اور ریاستی دہشتگردی، جبر و ظلم اور ناانصافیوں کے خلاف کھڑے ہوکر جدوجہد کیا ہے اور اپنے سروں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے بھی آزادی کیلئے شعوری طور پر جدوجہد کرکے قربانیاں دینے سے دریغ نہیں کیا ہے، وہ قوم اپنے منزل مقصود تک پہنچا ہے، آج ان کٹھن وقت و حالات میں جب دشمن نے اپنی ظلم و زیادتیوں کا بازار گرم رکھا ہوا ہے، ہر جگہ دشمن نے ناکابندی کی ہے، آج بھی بلوچستان کی آزادی کیلئے ہزاروں کی تعداد میں بلوچ قومی سپوت دشمن کے خلاف اپنی آزادی کیلئے مسلسل جدوجہد کررہے ہیں.

ایک سیاسی کارکن کی حیثیت میں سمجھتا ہوں کہ وقت و حالات کو سامنے رکھتے ہوئے قومی تحریک کو مزید مستحکم کرنے کیلئے ایک لانگ ٹرم پالیسی (long term policy) تشکیل دینے کی ضرورت ہے.جوسیاسی, قومی, انقلابی,تخلیقی,تحقیقی اورسائنسی بنیاد پر قائم ہو۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے قومی تحریک کے اسٹیک ہولڈرز کو ایک سیاسی، اشتراکی، پلیٹ فارم کی بھی ضرورت ہے۔ اسطرح بلوچ ریاست کی آزادی اور بلوچ قومی بقاء و تشخص کی بحالی کو ممکن بنایا جاسکتا ہے، بلوچستان کی آزادی ہی بلوچ قومی تشخص ہے، جس کیلئے جہد کرنا ہر بلوچ نوجوان کا فرض ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔