عالمی طاقتوں کی حماقتیں اور منفی رویہ – لطیف بلوچ

282

عالمی طاقتوں کی حماقتیں اور منفی رویہ

تحریر و تجزیہ : لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ممالک کے مابین تعلقات اپنے اپنے مفادات کے ارد گرد گھومتے ہیں، ایک ملک دوسرے ملک کیساتھ اپنے تعلقات، اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے استوار کرتی ہے۔ پسماندہ، غریب اور کمزور ملکوں کو امیر اور طاقتور ممالک اپنے مفادات کے لیئے استعمال کرتے ہیں، اسی طرح اب دیکھا جائے پاکستان کا امریکا، چین، سعودی عرب کیساتھ تعلقات برابری کی بنیاد پر نہیں بلکہ مفادات کی بنیاد پر ہیں۔ یہ ممالک دولت کی ریل پیل کرکے پاکستان جیسے غریب اور کمزور ممالک کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیئے استعمال کرتے ہیں۔ افغانستان میں سوویت یونین کی پیش قدمی اور خطے میں طاقت کے یکطرفہ توازن کو بیلنس کرنے کےلئے امریکا نے پاکستان کو بھر پور استعمال کیا۔ سوویت یونین کیخلاف پاکستان کی سرزمین، بحری اور فضائی اڈے، فوج اور انٹیلی جینس کو استعمال کیا گیا۔ دو طاقتوں کے درمیان جنگ میں کود کر پاکستان نے اپنی سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی بقاء کو داو پر لگایا۔ اس جنگ سے عوام کو فائدہ پہنچنے کے بجائے اُن کی زندگیاں مزید اجیرن ہوگیں لیکن فوج کے دونوں ہاتھ گھی اور سر کڑاھی میں تھی۔ اُنہوں نے جنگ سے بھر پور منافع حاصل کیا لیکن عوام کو ایک نہ ختم ہونے والے طویل جنگ میں جھونک دیا گیا اور جن جہادیوں کو امریکا، پاکستان،سعودی اور دیگر ممالک نے سوویت روس کیخلاف تیار کیا، انہوں نے پلٹ کر پاکستان میں کاروائیوں کا آغاز کیا۔

اس جنگ نے پشتونوں کو برباد کرکے رکھ دیا، یہ سلسلہ یہاں تک نہیں رکا بلکہ 9/11 کے بعد خطے میں مزید ڈالر اور ریال کی ریل پیل ہوئی، اب کے بار ایک بار پھر امریکا اور اتحادیوں کا رخ افغانستان کی طرف تھا لیکن نشانہ سوویت روس کیخلاف تیار کیئے گئے مجاہدین اور جہادی تھے اور امریکا کے یہ پیارے راج دلارے مجاہد سے دہشت گرد بن گئے۔ ایک بار پھر سرحد کے اس پار اور اُس پار اس جنگ کا نشانہ اور ایندھن افغان اور پشتون بن گئے۔ افغانستان سے لیکر وزیرستان تک کے علاقوں کو جنگی جہازوں اور ڈرون حملوں سے تخت و تاراج کیا گیا۔ گھر، کھیت و کھلیان اور کاروبار برباد ہوکر رہ گئے، عزت و غیرت سے زندگی گذارنے والے افغانوں اور پشتونوں کو طویل جنگوں نے شدید نقصانات اور تباہی سے دو چار کیا۔ آج افغانوں کی حالت زار دیکھ کر جنگ کے اثرات و نقصانات کا تخمینہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے لیکن دوسری جانب شاطر و چالاک پنجابی فوجی اشرافیہ نے افغانوں کے خون کا سودا کرکے خوب ڈالر کماتے رہے اور اس جنگ کو مزید طول دیتے رہے۔ اپنے پراکسیز کے ذریعے جنگ پر تیل ڈالتے رہے، جنگ کے شعلے جتنے افغانستان میں بلند ہوتے رہے اس تیزی سے اسلام آباد و راولپنڈی میں ڈالروں کی بارش ہوتی رہی، اب پاکستان امن مذاکرات کے نام پر امریکا و طالبان دونوں کو دھوکہ دے کر اپنے مفادات کے تحفظ کے لیئے کوشاں ہے۔

امریکا سے طالبان کی آڑ میں بات چیت آئی ایس آئی کررہی ہے اور جو مطالبات طالبان کی طرف سے رکھے گئے ہیں ان مطالبات میں ایک بھی مطالبہ ایسا نہیں جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکے کہ طالبان مذاکرات کررہے ہیں یا اُن کی مذاکرات کی کامیابی سے افغان سرزمین پر کوئی پائیدار امن قائم ہوگا بلکہ افغانستان کو مزید جنگ میں جھونکنے، مزید تباہی و بربادی پھیلانے کی سازشیں ہورہی ہیں۔

آج افغانستان میں صرف ایک یا دو اسٹیک ہولڈرز نہیں بلکہ مختلف ممالک اور طاقتیں افغانستان میں بیٹھے ہوئے ہیں، وہ پاکستان کے مفادات کے لیئے اپنے مفادات کا گلہ کسی صورت نہیں گھونٹیں گی، روس، چین، ہندوستان اور ایران بھی افغانستان میں بہت موثر اثر و اسوخ رکھتے ہیں اب پاکستان اس آڑ میں امریکا سے طالبان کو مذاکرات کے لئے راضی کرکے اس تگ و دو میں ہیکہ امریکا کی گود سے افغانستان کو نکال کر چین کی جھولی میں پھینک دیں لیکن اتنی آسانی سے امریکا افغانستان میں دوسری عالمی کھلاڑیوں کی اثر و اسوخ اور کنٹرول کو نہ برداشت کرے گی اور نہ ہی تسلیم کرے گی، نہ ہی افغانستان کا مسئلہ اتنا آسان اور سادہ ہیکہ امریکا اور طالبان بیٹھ کر حل کرسکیں۔

عالمی طاقتیں جنگوں پر سرمایہ لگاکر ان ملکوں کی وسائل کو لوٹنے کے علاوہ اُن خطوں کی اسٹرٹیجک اہمیت کا فائدہ اُٹھاتے ہیں، امریکا افغانستان میں فوج رکھ کر اور پاکستان میں فوجی اڈے بناکر جنوبی ایشیاء، وسطی ایشیاء پر سیاسی اور فوجی تسلط بڑھا کر تیل و گیس، کوئلہ اور قدرتی وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے علاوہ امریکا، روس، چین، عرب ممالک اور دیگر طاقتیں گوادر کے ساحل اور بلوچستان سمیت وسطی ایشیاء کے وسائل پر للچائی ہوئی نظریں رکھے ہوئے ہیں۔ اب چین اس خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیئے سی پیک سمیت دیگر منصوبوں پر سرمایہ کاری کررہی ہے۔ اس کے علاوہ گوادر اور بلوچستان میں سعودی عرب بھی اپنی اثرورسوخ بڑھانے کے لئے سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں۔

اس تمام صورتحال اور معاہدوں میں حقیقی مالک دور دور تک نظر نہیں آتے بلکہ پاکستان، بلوچستان اور افغانستان کی اسٹرٹیجک اہمیت کا فائدہ اُٹھا کر اپنے مفادات کو حاصل کرنے کے لئے کبھی امریکا سے سودا بازی کرتا ہے، کبھی چین تو کبھی سعودی عرب سے معاشی مفادات حاصل کرنے کے لئے بلوچستان اور افغانستان کی سرزمین کواستعمال کرتی ہے۔ چین ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر محکوم اقوام کے وسائل کے لوٹ مار اور دنیا میں اپنی اجارہ داری کو قائم کرنے کے لیئے، بے تحاشا دولت خرچ کررہی ہے، اپنے لوٹ مار اور تسلط کو وسعت دینے کے لئے براعظم افریقہ سے لیکر براعظم ایشیاء تک وسائل کو چرانے کے لئے جال بچھا رہی ہے، اس کے علاوہ قومی تحریکوں کے خلاف طاقت، دولت اور سفارت کاری کے اپنے چینلز کو بھی بھر پور استعمال کررہی ہے۔ آج کا چین ایک خونخوار سامراج کا روپ دھار چکا ہے، ماو کا چین سرمایہ داروں کی چنگل میں پھنس چکی ہے۔ محکوم و کمزور قوموں کے وسائل کی لوٹ مار کے دوڑ میں تمام سامراجی طاقتیں شامل ہیں، اب اس خطے میں چین، سعودی عرب اور پاکستان گٹھ جوڑ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے، امریکہ کے اتحادی سعودی عرب کی جانب سے چین کی موجودگی میں بلوچستان میں سرمایہ کاری کے لیئے رضا مندی ظاہر کرنا اور چین کی جانب سے سعودی عرب کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت دینا یہ ظاہر کرتا ہیکہ بیک ڈور امریکہ بھی اس گٹھ جوڑ میں شامل اور اس اتحاد میں اسٹرٹیجک پارٹنر بھی ہے کیونکہ امریکہ کی خاموشی اُس کی رضا مندی پر تصدیق کی مہر ثبت کرتا ہے۔

امریکا، سعودی عرب کے ذریعے ایران سے بدلہ لینا چاہتا ہے، اس لیئے وہ چین کی بلوچستان میں موجودگی کے باوجود سعودی عرب کی سرمایہ کاری پر رضا مند اور خاموش ہے، امریکہ کی خاموشی خطے میں مزید خون خرابے کا موجب بنے گا بلکہ بلوچستان اور بلوچ قوم سمیت دیگر اقوام کو دبانے اور اُنکی نسل کشی کیساتھ ساتھ چین، پاکستان اور سعودی عرب کی گٹھ جوڑ افغانستان، ایران اور ہندوستان میں خونریزی کے لئے راہیں کھول دے گا، حالیہ دنوں ایران میں پاسدران انقلاب اور کشمیر میں ہندوستانی فوج پر حملوں میں پاکستان کی فوج کے جہادی اثاثے ملوث ہیں، سعودی شہزادے کے دورہ پاکستان سے چند روز قبل کشمیر اور ایران میں حملوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مستقبل قریب میں سعودی عرب جنگی سرمایہ کاری میں مزید اضافہ کرے گی کیونکہ مذہبی جہادیوں پر سرمایہ کاری دنیا بھر میں سعودی عرب کررہی ہے اور پاکستان اس جنگی سرمایہ کاری سے منافع خوری کی خواہش مند ہے کیونکہ موجودہ حالات میں اس کے سواء پاکستان کیساتھ اور کوئی راہ نہیں، پاکستان کی ڈوبتی ہوئی معاشی ناؤ کو سہارا دینے کے لئے خطے میں جنگی سرمایہ داری اب ضروری ٹہرا ہے، اس کے لیئے پاکستان راہ ہموار کررہی ہے۔

جہادی تنظیموں کے ذریعے ایران اور ہندوستان میں حملے سعودی عرب کو سرمایہ داری کرنے کے لئے رضا مند کرنے کی ایک کوشش ہوسکتی ہے۔ امریکہ کی طرف سے وار اینڈ ٹیرر پر مزید سرمایہ کاری سے معذرت ظاہر کرنا اور پاکستان کی فوجی امداد کی بندش کے بعد جہاں پاکستان کی معیشت ہچکولے کھا رہی ہے اور فوج بھی سخت معاشی بحرانوں کا شکار ہے، پنجاب کی معیشت کو بچانے اور فوجی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے محکوم قوموں کے وسائل کو اونے پونے داموں پر فروخت کررہے ہیں اور دوسری جانب جنگی منافع خوری کی جارہی ہے، اب سعودی عرب سرمایہ کاری اور امداد دے کر پاکستان کی فوج کو ایران کیخلاف استعمال کرے گی، جبکہ ایران کے کیخلاف کسی بھی ممکنہ جارحیت میں بلوچ سرزمین استعمال ہوگی، عالمی جنگوں کا آماجگاہ اور دشمنیوں کا اکھاڑہ بلوچستان بنتا رہا ہے، اب بھی پاکستان اپنے مفادات کے لئے چین اور سعودی عرب سے ملکر بلوچستان کو ایک جنگی اڈے کے طور پر استعمال کرے گی۔

سامراجی نوآبادیاتی طاقتیں جنگوں پر سرمایہ، وسائل پر قبضہ اور لوٹ مار کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ اُن کا نظر تیل، گیس، کوئلہ اور پانیوں پر ہے۔ ان جنگوں میں ایک بڑا سرمایہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لگی ہوئی ہے، یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ملکوں سے زیادہ طاقتور اور دولت مند ہے۔ جو اپنے طاقت اور دولت میں مزید اضافے کے لئے محکوم قوموں کے وسائل پر قبضہ جمانے کے لئے اُن کے سرزمینوں کا رُخ کرکے اپنے پراکیسز کے ذریعے خونریزی اور قتل و غارت گیری کا آغاز کرتے ہیں، ایک طرف سامراجی طاقتیں اور ملٹی نیشنل کارپوریشنز ہیں جو لوٹ مار کے لئے وسائل خرچ کرتے ہیں، دوسری جانب اُن سرزمینوں کے اُفتادگان خاک ہیں، جو اپنی آزادی، وسائل اور وطن کے تحفظ کے لئے جنگ لڑتے ہیں۔ اُنکی جنگ بقاء کی جنگ ہوتی ہے، شناخت اور تشخص کو بچانے اور برقرار رکھنے کے لئے انسانی وسائل سے دولت اور طاقت کا مقابلہ کرتے ہیں اُن کیساتھ اپنی بقاء کی جنگ لڑنے کے لئے دولت اور جدید ہتھیاروں کی کوئی بڑی کھیپ نہیں ہوتی بلکہ وہ جذبہ ایمانی سے لڑتے ہیں اور لازوال حوصلوں سے اُڑان بھرتے ہیں، جان کی بازی لگا لیتے ہیں، اپنی سرزمین، تہذیب، شناخت اور مستقبل کی تحفظ کرتے ہیں، آج بلوچ سرزمین، وسائل اور ساحل پر قبضہ جمانے کے لئے چین، سعودی عرب سمیت دیگر طاقتیں بے تحاشا دولت استعمال کررہے ہیں، یہ طاقتیں وسائل کی لوٹ مار کیساتھ ساتھ بلوچ سرزمین کی اسٹرٹیجک اہمیت سے استفادہ حاصل کرکے اپنی جنگیں لڑنے اور دیگر قوموں کے وسائل کو لوٹنے کے لئے بلوچ سرزمین کو استعمال کرنا چاہتے ہیں اور بلوچ سرزمین اور ساحل کا بھر پور فائدہ پاکستان اُٹھا رہی ہے، جو امریکہ، چین، سعودی عرب سمیت دیگر طاقتوں سے معاشی فوائد حاصل کررہی ہے۔ آج پاکستان کی دنیا کی مارکیٹ میں تھوڑی بہت اہمیت ہے، اس اہمیت کی وجہ بلوچ سرزمیں، یہاں کے وسائل اور ساحل ہے۔

عالمی طاقتیں خطے میں امن، سکون، استحکام، ترقی اور خوشحالی نہیں چاہتے۔ اگر وہ امن کے خواہاں ہوتے تو آزاد بلوچستان خطے میں امن کی کنجی اور ضمانت ہے اور وہ آزاد بلوچستان کے قیام کے لئے بلوچ تحریک کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی کمک و حمایت کرتے اور پاکستان جیسے دہشت گردی کے فیکٹری سے چھٹکارا حاصل کرتے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے اس فیکٹری کے ترقی و ترویج میں عالمی طاقتیں حصہ دار ہیں، جو دیگر قوموں کو کمزور و محکوم رکھ کر پاکستانی فوج کو طاقتور بناکر خطے میں اپنی تسلط اور اجارہ داری کو برقرار بلکہ مضبوط و مستحکم بنانا چاہتے ہیں لیکن اُنکی یہ حماقت دنیا کو تباہی و بربادی کے دھانے پر پہنچا چکی ہے بلکہ پاکستان کا وجود دنیا کو مزید بدامنی، دہشت گردی اور تباہی و بربادی میں دھکیلے گی۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔