عالمی اداروں کی جانب سے محض رپورٹیں شائع کرنا بلوچ لاپتہ افراد کے مسئلے کا حل نہیں – ماما قدیر

135

طویل بھوک ہڑتال نے ثابت کردیا کہ بلوچ ماں، بہنیں اور بچے اپنے پیاروں کیلئے کمر بستہ ہیں – ماما قدیر بلوچ

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3504دن مکمل ہوگئے جبکہ سول سوسائٹی اور بلوچ نیشنل موومنٹ کوئٹہ کے صدر نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گمشدہ بلوچ سیاسی کارکنان کی بازیابی ریاستی اغواء کاری اور حراستی قتل کے خلاف ایک طویل مارچ کرنے سمیت طویل بھوک ہڑتالی کیمپ تاریخی اہمیت کے حامل ہے۔ دنیا کے مہذب اقوام، ممالک، انسانی حقوق کے اداروں کو بلوچستان میں جاری ریاستی بربریت کے بارے میں دستاویزی آگاہی دی جاچکی ہے، کھٹن حالات، ریاستی تشکیل کردہ ڈیتھ اسکواڈ اور خفیہ اداروں کے دہشت کے باوجود طویل بھوک ہڑتال نے ثابت کردیا کہ بلوچ ماں، بہنیں اور بچے اپنے پیاروں کیلئے کمر بستہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: راشد حسین کی عرب امارات میں گرفتاری، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ہنگامی اپیل جاری کردی

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ قوم کے فرزندوں کو شہید اور اغواء کرنے کے ساتھ لوگوں کے گھروں کو مسمار کیا جارہا ہے جو خود انسانیت کے نام لیوا اداروں کیلئے ایک سوالیہ نشان ہونا چاہیئے مگر افسوس کہ انسانی حقوق کے علمبردار ادارے و ممالک آج پاکستان کے سامنے خاموش اور بلوچ نسل کشی پر تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں جو انسانی کی بقاء کیلئے خطرے سے کم نہیں ہے۔ اکیسویں صدی میں اس طرح کی اعلانیہ قتل عام کی مثال دنیا کے کسی ملک میں نہیں ملتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ انسانی حقوق کے اداروں اور جمہوریت کے دعویدار ممالک کے جہاں مفادات ہوتے ہیں وہ صرف اس طرف دھیان دیتے ہیں۔ بلوچستان میں جاری بدترین انسانی حقوق کیلئے عملی طور پر آج تک کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔اقوام متحدہ کے وفد نے بلوچستان کا دورہ کیا تھا جہاں انسانی حقوق کے سنگین خلاف ورزیوں کے حوالے سے متاثرین کے بیانات بھی قلم بند کیے گئے لیکن اس کا نتیجہ صرف ایک رپورٹ کی شکل میں سامنے آیا ، کسی عالمی ادارے کی جانب سے محض ایک رپورٹ شائع کرنا بلوچ قوم کے دکھوں مداوا نہیں اور اس سے لاپتہ افراد کے کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ہے۔