شہید کیسے زندہ ہوتے ہیں؟ – سرباز بلوچ

667

شہید کیسے زندہ ہوتے ہیں؟

سرباز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

شہید بارگ جان اور شہید دلجان کے پہلی برسی پر ان کے جہد وجہد کو سرخ سلام۔

جب سے اس جہاں میں آنکھ کھولا ہے، پیدا ہونے سے لیکر فناء ہونے تک کے عمل کو نظروں سے دیکھتے آرہے ہیں، کہیں پہ کسی گھر میں نئے مہمان آنے کی خوشیاں ناچ رہے ہوتے ہیں تو کسی گھر میں کسی کی اس دنیا سے چلے جانے پہ سُوگ اور پریشانی راج کرتے ھوئے نظر آجاتے ہیں۔ کب سے یہ عمل جاری ہے اور کب تک یہ رہے گا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔

موت جیسی حقیقت کو کوئی جھٹلا بھی نہیں سکتا ہے، اس کے باوجود یہ بات کئی وقتوں سے سنتے ہیں کہ شہید مرتے نہیں ہیں شہید زندہ ہوتے ہیں، کیسے زندہ ھوتے ہیں؟ شہید کے زندہ ھونے کا فلسفہ کیا ہے؟ ہر ایک نے اپنی طرح اس کو بیان کیا ہے۔ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مذہبی لوگ اسی دین اور مذہب کو آگے پھیلانے کی کوشش کرتے ہوئے دوسرے مذاہب کے پیرکاروں سے لڑ کر جان دینے والے کو شہید گردانتے ہیں اور اس کے مختلف اچھائیاں بیان کرتے ہوئے، دوسری جہاں میں مختلف انعامات ملنے کا ذکر کرکے مذہب پر مزید جان فدا کرنے پر دوسرے لوگوں کو بھی تیار کرتے ہیں اور شہید کی قربانی کو بڑے عزت و احترام سے دیکھتے ہیں۔

کوئی ملک دوسرے ملک پر حملہ کرتا ہے، یا اپنی دفاع میں سپاہی جب اس جنگ میں مارے جاتے ہیں، تو ان کو شہید کہہ کر ان کے شہادت کے بعد ان کے بہترین کارکردگی کے مطابق ان کو مختلف ایوارڈوں سے نوازا جاتا ہے۔ ایک ملک میں رہنے والے مختلف قوموں کے درمیان بھی یہ شہادت والا قصہ بہت دیکھا گیا ہے۔

شہادت اور شہیدوں کے بارے میں سنا اور پڑھا ہے لیکن اب ہم جس خطے میں رہ رہے ہیں، یہ تاریخ میں شہیدوں کے ایک اور باب کا اضافہ کررہا ہے۔

شہادت پہ رتبہ پانے والے اپنے قریبی لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ شُہدا واقعی چُنے ہوئے لوگ ہوتے ہیں، ان کے اندر قربانی، جدوجہد، بھلائی، سچائی، اور دیگر مختلف خصوصیات کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہیں۔ مکر و فریب، دروغ گوئی، بزدلی، بدنیتی اور مختلف قسم کی برائیوں کی بدبو تک ان میں نہیں ہوتی۔

خاران کے صحرا میں پھل پھول کر ایک پھول بھی ان ہی چُنے ہوئے لوگوں میں سے “تھا” نہیں بلکہ “ہے” کیونکہ جب شہید مرتے نہیں ہیں، تو میں اس پھول کو بھی “تھے” کے بجائے “ہیں” ہی لکھوں گا، جو حقیقتاً آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں اور ہمیشہ موجود ہی رہے گا، جب شہید بارگ جان پیدا ہوتے ہیں، شعوری عمر میں پہنچ کر ہر وہ چیز جسے ھم پر مسلط کی گئی ہے، ان کو من وعن ماننے کے بجائے اس کے ذہن میں سوالات اُبھر جاتے ہیں، وہ سوچوں میں گم ھو کر مختلف زاویئے سے سوچنا شروع کردیتے ہیں، سماج کے اندر بُرائیوں سے لڑنے کا فیصلہ کر کے ہر اس چیز پر سوال اُٹھاتے ہیں، جو فطری طور پر نہیں بلکہ زبردستی مسلط کی گئی ہے اور سب لوگ اسی مسلط کئے گئے اصولوں کو مجبوری سمجھ کر چل رہےتھے۔
سوال اُٹھانا، بحث کرنا، ان کے خلاف بولنا، موت کو گلے لگانے کے مترادف تھا لیکن سامراج کی سب اذیتوں کو پس پشت ڈال کر سامراجی قوتوں کے سامنے للکار کر اپنی آواز بلند کرنا شہید نورالحق جیسے نڈر بہادر لوگوں کا ہی شیوہ ہے۔

بچپن سے ہی شہید فکر وخیالات سے گھیرے ہوتے تھے، ہمیشہ قوم کی بَزگی اور قبضہ گیر کے ظُلم، مکر وفریب سے پردہ اُٹھانے کیلئے مختلف فورم پر جدوجہد کرتا رہا، بلوچستان کے کونے کونے میں جاتا رہا، لوگوں سے ملنا، دیگر کامریڈوں کے ساتھ جلسے جلوس کے انعقاد سے لےکر مُختلف شکلوں میں بلوچ عوام کو اجالے سے روشنی کی طرف لانے کی ہر ممکن کوشش کی۔

علم وعمل سے لیس بارگ جان جیسے نوجوان سامراجی قوتوں کو کبھی ہضم نہیں ہوئے اور اکثر نوجوانوں کو اُٹھا کر زندانوں میں بند کرنا اور ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دینا قبضہ گیر کے پاس آخری یہ حربہ استعمال کرنے کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ ایسے نوجوان یا سامراجی قوتوں کے ظلم کے نظر ہوگئے یا اکثر نوجوانوں نے پہاڑوں کا رُخ کرتے ہوئے، دشمن سے لڑنے کا فیصلہ کرلیا، اسی کاروان کو جاری رکھتے ہوئے سامراجی قوتوں کے ساتھ قلم، کتاب کے ساتھ ساتھ بارگ جان نے دشمن کے ساتھ اب بندوق سے بھی لڑنے کا فیصلہ کرلیا۔

شہید کے اس فیصلے سے علاقے میں وقتی طور پر ایک با علم شخصیت کی کمی کو کئی لوگوں نے محسوس کیا لیکن زندہ دل لوگ جہاں بھی چلے جاتے ہیں، وہ ہمیشہ لوگوں کو اپنے درمیان موجود ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ شہید بارگ جان سے پہلی ملاقات سے لے کر آخری دنوں کے رابطے تک ہر ایک یاد دل میں ثبت ھوچکے ہیں۔

جہاں بھی چلے جاتے خلوص سے اپنا کام بخوبی انجام دیتے رہے، قلم کے بعد بندوق کے ذریعے دشمن کو شکست دینے اور اپنے قوم کے اندر تحریک آزادی کو اجاگر کرنے کی انتھک محنت کرتے رہے، یہاں تک کہ دشمن جسمانی طور پر شہید بارگ جان کو ہم سے جدا کرنے میں کامیاب ہوگیا لیکن اس جیسے مخلص استاد کو اس کی قوم سے الگ کرنا، یہ دشمن کی بھول ہے جس کا کردار ایک کھلے ھوئے کتاب کی شکل میں موجود ہے۔ پہاڑوں میں رہتے ہوئے شہر کے دوستوں کو سمجھانا، ان کو مطالعہ کرنے کی تلقین کرنا، اور پی ڈی ایف کتابیں بھیجنا، یہ علم دوستی کا ایک کھلا ثبوت ہے۔

19 فروری کا وہ دن جب دو روشن تابندہ ستارے، ہم سے جسمانی طور پر الگ ہوگئے، جو قبضہ گیر کے خلاف بلند آواز تھے اورانہوں نے اپنے قوم کیلئے لافانی قربانیاں دیں۔

خضدار زہری کے علاقے میں قابض فوج کے ساتھ دو بدو لڑائ میں دشمن کے ایک درجن سے زیادہ فوجیوں کو ہلاک کرنے کے بعد جب دونوں نوجوانوں کے بندوقوں کے گولی ختم ھونے کو ھوتے ہیں، تو آخری گولی اپنے ہی سینے میں پیوست کرکے دشمن کے آگے سرنڈر ھونے کے بجائے، تنظیمی رازوں کو اپنے ساتھ دفن کردیتے ہیں۔

تب سے میں جان گیا ھوں کہ شہید کیسے زندہ ھوتے ہیں، حق کیلئے لڑکر جان دینے والے کیسے نہیں مرتے ہیں، وہ کیسے ہمیشہ اپنے زندہ ھونے کا احساس دلاتے ہیں، شہید بارگ جان ایک سال گذرنے کے بعد بھی ہمارے درمیان موجود ہے اور اپنے زندہ کردار کا احساس دلاتا رہتا ہے، اسے بھول جانے کی کوشش کرنے کے باوجود ھم نہیں بھلا پاتے ہیں اور اس کو یاد کرنا دوستوں سے اس کے بارے میں باتیں کرتے ھوئے فخر محسوس ھوتا ہے۔

ان کے برعکس اس دو بدو لڑائی میں ایک درجن سے زیادہ ہلاک ہونے والے وہ فوجی کون تھے؟ کہاں سے ان کا تعلق تھا؟ آخر کیا وجہ تھی کہ ان کے بارے میں سب کچھ چھپایا گیا اور کوئی نہیں جانتا کون تھے جو اس لڑائی میں مارے گئے۔

لیکن بلوچ قوم کے دونوں سپوت شہید نورالحق اور شہید دلجان آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔