شہداءِ وطن – شہید وحید و شہید سلمان – لطیف بلوچ

475

شہداءِ وطن، شہید وحید و شہید سلمان

تحریر: لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

فطرت کا ایک اٹل قانون اور اصول ہے، جس نے ماں کا کوکھ دیکھا ہے، وہ قبر کی لحد بھی دیکھے گی۔ جس نے ماں کی آغوش میں آرام کیا، وہ لحد میں ایک دن آسودہ خاک ہوجاتا ہے، موت برحق ہے، موت کی جانب سفر کا عمل زندگی کے آغاز کے ساتھ پیدائش سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ لیکن انسان علم و عمل اور جدوجہد سے اپنے زندگی کو یادگار اور موت کو دیگر انسانوں کے لئے جینے کا ذریعہ بنا دیتے ہیں، وہ مر کر بھی زندہ رہتے ہیں کیونکہ اُنکی علم و عمل، فکر اور نظریات انہیں زندہ رکھتے ہیں۔ ہر انسان کو موت کے بعد زندہ رہنے کے لئے اپنے عمل و کردار کو فلک بوس بنانا پڑتا ہے۔

کہتے ہیں کہ شہید مرتا نہیں، وہ زندہ ہے دراصل وہ جسمانی طور پر فنا ہوتا ہے لیکن اُسکا فکر و کردار اُس کو مرنے نہیں دیتے، ہمیشہ زندہ رکھتے ہیں، عمل اور کردار ہی انسان کی زندگی ہوتی ہے۔ شہیدوں کو ہم اس لئے یاد کرتے ہیں، اُنکے سوچ و فکر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اُنہوں نے ذاتی خواہشات اور آسائش کے بجائے قوم و وطن کے لئے اپنے جانوں کو قربان کیا ہے، ایک مقصد کے لئے موت قبول کی ہے، کسی عظیم مقصد خصوصاً آزادی جیسی اُنمول نعمت کے لئے قربانی بہت اعلیٰ اور عظیم ہوتی ہے اور اس عظیم نعمت کے لئے بلوچ نوجوان اپنے سر قربان کررہے ہیں۔

آج میں ایسے ہی کرداروں کا ذکر کرنا چاہ رہا ہوں، وہ نوجوان تھے، وہ غلامی کی اذیت اور آزادی کی قیمت سے واقف تھے، وہ باعلم تھے اور اُنہوں نے 29 فروری 2012 کو اپنی جانیں وطن پر نچھاور کرکے ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے۔ شہید وحید بلوچ، شہید سلمان نے دیگر شہداء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنا فرض پورا کردیا اور اپنی جانیں قربان کرکے مادر وطن کا قرض ادا کرکے ہمیں مقروض بنادیا، شہید وحید بلوچ وطن کا عاشق اور مجنوں تھا، جس نے اپنی جوانی اپنی عشق پر قربان کردیا ایسے بہت سے مجنوں اپنی لیلا (بلوچستان) پر اپنی جانیں نچھاور کرچکے ہیں، اپنے لہو سے وطن کو گلزار کیئے ہوئے ہیں۔ وہ عاشق مشعال تھے اُنہوں نے اپنے لہو سے آزادی کی مشعل روشن کئے، آج اُن کے جلائے ہوئے مشعال ہاتھوں میں تھامے نوجوان آزادی کی راہ پر گامزن ہیں۔

29 فروری 2012 کو ریاستی اداروں کے آلہ کاروں اور ڈیتھ اسکوڈ کی کرائے کے قاتلوں نے شہید وحید بلوچ اور شہید سلمان بلوچ کی جسم کو گولیوں سے چھلنی کردیا، قاتل اس طرح نوجوانوں کو قتل کرکے خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش اور بلوچ نوجوانوں کی دلوں سے وطن کی محبت اور آزادی کی جستجو کو نکالنا چاہتے تھے لیکن وہ اپنے اس منصوبے میں ناکام رہے، گولیوں، تشدد اور موت سے فکر کو ختم نہیں کیا جاسکتا، سوچ کو دبایا نہیں جاسکتا اور روشنی کو روکا نہیں جاسکتا اگر موت و تشدد سے قومیں ختم ہوتی، تو آج دنیا کی نقشے سے فلسطینی، ویت نامی اور کیوبن سمیت سامراجیت اور نوآبادیات کے خلاف لڑنے والے اقوام ختم ہوئے ہوتے، فلسطینی نسل در نسل لڑ رہے ہیں، اس طرح بلوچ قوم کو بھی مارنے سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔

بلوچ سات دہائیوں سے اپنی آزادی کی حصول کے لئے لڑ رہے ہیں، مزاحمت کررہے ہیں، اس سے قبل کئی دہائیوں تک انگریز سامراج سے لڑتے رہے، دیگر جارح قوتوں کا مقابلہ کیا، لیکن اپنی آزادی پر کسی سے سمجھوتہ نہیں کیا، مصلحت پسندی کا شکار نہیں بنے اور آج بھی تمام تر مظالم، جبر و تشدد، بربریت کے باوجود نوآبادیاتی قبضہ گیر قوتوں سے سمجھوتہ اور مصالحت کے لئے تیار نہیں ہیں، مائیں اپنے بچوں، اپنے جگر کے ٹکڑوں کے کندھوں پر خود بلوچستان کا بیرک ڈال کر دشمن سے لڑنے کے لئے رخصت کرتے ہیں، جب ماں و بہنوں کا جذبے، عزم و حوصلے اس طرح بلند و بالا ہونگے، اُس وقت تک کوئی فوج اور دنیا کی کوئی جارح قوت بلوچوں کو شکست نہیں دے سکے گی۔

اس وطن کی خاک سے وحید بلوچ، سلمان، شہید سمیع بلوچ، مجید زہری، وحید بالاچ، جیسے فرزند جنم لیتے رہینگے آزادی اور وطن مادر کی تحفظ کے لئے لڑتے رہینگے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔