شاباش جنگ بند کرو، سردار کرنل کبیر خان – برزکوہی

802

شاباش جنگ بند کرو، سردار کرنل کبیر خان

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

سینہ تان کر بلوچ سماج کو قبائلی سماج کہنے والوں کے منہ پر ایک تمانچہ اس وقت لگا ہوگا، جب پاکستان فرنٹیئر کور کے ایک معمولی کرنل اور کمشنر قلات کے حکم و فرمان پر مینگل و سناڑی قبیلوں کے میر و معتبر، اچھے بچوں کی طرح اپنے سابقہ خونی کھیل کو بھول کر آپس میں بغل گیر ہوگئے۔

عرصہ بیس سال سے قلات کے علاقے دشت گوران میں زمین کے تنازعے کو جواز بنا کر پنجابی کے ایماء پر آپس میں لڑنے والے مینگل اور سناڑی نے آج ایف سی کے کرنل کے سامنے سجدہ ریز ہوکر جنگ بندی کا اعلان کیا، وہ بھی قبائلی اور بلوچ مفاد کی خاطر نہیں بلکہ بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف پاکستان فوج کے ساتھ ملکر ایک متحدہ محاذ تشکیل دینے کی خاطر۔

یاد رکھا جائے اس بیس سال کے دوران اس قبائلی تنازعے کو حل کرنے کی خاطر بلوچ علماء و معتبرین نے بارہا کوشش کی کہ یہ مسئلہ بلوچ قبائلی رسم و رواج کے مطابق حل ہو، مگر کچھ نہ ہوا، کیونکہ جب قبائلیت خود دم توڑ کر کب کا پنجابی کے سامنے سجدہ ریز ہوگیا ہے تو پھر قبائلی رسم و رواج کہاں اور اس کی کیا حیثیت ہوگی۔

ہم بار بار کہہ چکے ہیں کہ بلوچ قبائلی نظام اب بلوچ سماج میں اپاہچ ہوچکا اور اس کو آج صرف پاکستان اور مفلوج قبائلی سردار، نواب اور میر و معتبر اپنے معاشی و ذاتی مفاد کی خاطر آکسیجن فراہم کرکے دوام بخشنے کی ناکام کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، گوکہ قبائلی نظام ورواج و رویات انگریزوں کی بلوچستان آمد کے بعد ہی اپنے حقیقی پہچان و شناخت اور معیار کو کھوچکا ہے۔

دشت گوران میں حالیہ جنگ بندی کا واقعہ اور اس سے قبل بھی ایسے سینکڑوں واقعات رونما ہوچکے ہیں، ان تمام واقعات پہ غور کیا جائے یا ان کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو آج پاکستان کے معمولی آفیسر کے سامنے نواب، سردار اور میرو معتبروں کی حیثیت ایک چوکیدار اور چپڑاسی کے سواء اور کچھ نہیں ہے، پھر یہ چیڑاسی اور چوکیدار پنجابی کی ہمیشہ حکم کے پابند ہوکر سادہ لوح بلوچوں کو قبائلیت کے نام پر استعمال کرتے ہیں، لڑاتے ہیں اور ان کے خون سے ذاتی مفاد حاصل کرتے ہیں، جب پنجابی چاہے ان کو لڑاتا ہے اورجب چاہے، ڈرامہ رچا کر ان کا تصفیہ کرواتا ہے اور دونوں صورت میں فائدہ ریاست اور مفلوج قبائلی معتبرین کا ہوتا ہے اور نقصان براہِ راست بلوچ قوم کا ہوگا۔

اگر شروع سے لیکر آج تک شعوری بنیادوں پر بلکہ صحیح معنوں میں بلوچ قوم میں اپاہج قبائلیت کی تبلیغ و ترغیب نہ ہوتا اور یہ بوسیدہ اور فرسودہ سوچ کو اپنے ذاتی مفاد کے خاطر پروان چڑھانے کی کوشش نہ ہوتا، تو آج بلوچ اس فرسودہ سوچ کے زد میں آکر اس طرح آسانی کے ساتھ استعمال نہ ہوتے، بلکہ سب کے سب حقیقی بلوچ بن بلوچ وطن پر قربان ہوتے۔

اب بلوچ سماج میں یہ طبقہ ایسا ناسور بن چکا ہے، جوصرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی خاطر جب چاہے، حسب ضرورت کبھی قوم پرست، کبھی مذہب ، کبھی قبائلی، کبھی آزادی پسند اور کبھی پاکستان پرست بننے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں جہاں بھی ان کی ذاتی و خاندانی مفاد وابستہ ہوں، یہ طبقہ وہاں پہ جھک جاتا ہے ان کا کوئی حقیقی معیار نہیں ہوتا ہے اور ان کی دوستی و دشمنی ،حمایت و مخالفت سب کے سب ذاتی اور خاندانی مفاد میں منحصر ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ یہ مشاہدے میں بار بار آیا ہے کہ جب کسی کی حیثیت بلوچ سماج یا بالخصوص قومی تحریک میں بطور زوال پذیر ہو اپنے مقام و عزت کو قبائلیت کی فرسودہ نظام میں سہارا دینے کی کوشش کرتا ہے اور پوری بلوچ سماج کو خواہ مخواہ قبائلی سماج سے تشبیہہ دینے کی کوشش کرتا ہے، اوربالکل اسی طرح جس طرح مذہب کے نام پر قوم کا استحصال کرنے والے مذہب کے نام کو استعمال کرکے قوم کا استحصال کررہے ہیں، اسی طرح قبائلیت کے نام پر بلوچ قوم کو استعمال کرکے صرف ذاتی مفاد حاصل کرتے ہیں۔

فرسودہ قبائلی رویے اور خصلتوں کی ایک چھوٹی سی مثال بیس سال سے قبائلی جنگ، قبائلی روایات اور رسم و رواج اور قبائلی معیار کی بنیادوں پر سادہ لوح اور غریب لوگوں کو لڑا کر مروانا، خاندانوں کو درپدر کرنا، آخر کار ایک ایف سی کرنل کی ایک ہی فون پہ سر تسلیم خم کرکے گھر سے باہر روڈ کنارے حکم کی بجاآوری کونسی روایات اور کونسے رسم و رواج کے زمرے میں آتا ہے؟

تقریباً 35 سال قبل اسی دشت گوران پر اسی پاکستانی فوج نے مینگل قبیلے کے رہنماء میرلونگ خان مینگل کو شہید کیا اور آج 35 سال گذرنے کے بعد اسی مقام پر شہید لونگ خان کے بیٹے قمبر خان مینگل کا سناڑی قبیلے کے ساتھ تصفیہ بھی ایک کرنل کرواتا ہے، کیا یہ قابل فخر دستور اور قانون بھی بلوچ قبائلیت کی حقیقی اور تاریخی معیار اور حقیقت ہے؟ پھر ایسی سماجی روایات اقدار پر سینہ تان کر فخر کرنا علم و شعور کی علامت ہے یا پھر جہالت وپاگل پن کا؟

آج اکیسویں صدی میں بھی ہمارے سماج علم و شعور کی کا فقدان ہے، آج بھی علم کے خزانے ردی کی ٹوکریوں میں پڑے ہونگے اگر ایسا نہ ہوتا تو آج میرے وطن کی باسیوں اور قوم کے نوجوانوں کو اس طرح آسانی کے ساتھ کوئی بھی بے وقوف نہیں بنا سکتا، یہ بلوچ قومی حقیقی جہدکاروں، ادباء، دانشوروں اور لکھاریوں کی ذمہ داری بنتی ہے، سب سے پہلے خود ، مصنوعی حد تک نہیں بلکہ عملاً خود بلوچ بن کر بلوچ قوم کو بلوچیت و قومیت کا درس دیکر ان میں علمی و سیاسی بنیادوں پر ذہنی و فکری سطح پر ان کی تربیت کریں، اور قومی تحریک آزادی کا عملاً حصہ بننا، پھر بلوچ قوم خاص کر بلوچ نوجوان کبھی بھی کسی موڑ پر دھوکہ و فریب اور گمراہی کا شکار نہیں ہونگے ۔

بصورت دیگر جب علم و شعور اور عمل نہیں ہوگا تو دھوکہ، فریب اور گمراہی کا پلڑا لامحالہ بھاری ہوگا اور پھر بلوچ قوم اور بلوچ نوجوان سوچ کے حوالے سے بھیڑ بکریوں کی شکل میں کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر بھٹکتے رہیں گے اور آخر کار ضائع شدہ لوگوں کی فہرست میں سرفہرست ہونگے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔