زخم ابھی بھرے نہیں ۔ آکاش بلوچ

501

زخم ابھی بھرے نہیں

آکاش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

19 فروری 2018 کو ایک سال ہو گیا، مگر وہ زخم اسی طرح تازہ ہیں جس طرح 19 فروری 2012 کو شور پارود میں دشمن اور اس کے حواریوں سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے والا شہید حق نواز کے شہادت کا زخم ابھی تک تازہ ہے۔ وطن پر قربان ہونے والے ہزارون شہداء نے بغیر کسی غرض و لالچ کے صرف اور صرف اپنے مادر وطن اور اپنے قوم کی بقاء کیلئے اپنے جان کا نذرانہ پیش کیا ہے. اس پرخار اور کٹھن سفر میں، دشمن کو ہر موڑ پر شکست دے کر، اپنی سانسیں اور لہو سے منزل کو نذدیک کرتے گئے. تاریخ گواہ ہے جب بھی دشمن نے وطن پر آگ برسائی ہے تو دھرتی کے بہادر فرزندوں نے اپنے گرم لہو سے اس دھرتی کو سیراب کیا ہے اور اپنے آنے والے نسل کیلئے ایک آزاد وطن کا خواب لیئے موت سے آنکھیں ملا کر شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوئے ہیں، مادر وطن کے فرزندوں کو دشمن بے حوصلہ کرنے کے ہزار حربے آزمانے کے بعد بھی ناکام رہا ہے، ہزاروں فرزندوں کو اذیت خانوں میں دن رات اذیتیں دے کر بھی انکا حوصلہ توڑنے میں ناکام رہا ہے. اپنے مادر وطن کی حفاظت کے لیئے نوجوان سر پر کفن باندھ کر شہداء کے مقصد کو پورا کرنے کے لیئے کہیں دلجان اور بارگ بن کر تو کہیں حئی اور کہیں فتح بن کر اپنی جان قربان کررہے ہیں۔

19 فروری کو جب معلوم ہوا کہ وطن کے دو جانباز دشمن سے بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے ہیں، میں وہاں پہنچا جہاں ان جانبازوں کی آخری دیدار کرنے کے لئے لوگ جمع ہوئے تھے۔ دونوں الگ الگ تنظیموں سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک مورچے سے دشمن پر وار کرتے ہوئے شہید ہوگئے تھے. مادر وطن کے دونوں بہادر فرزندوں نے دشمن کا آخری وقت تک مقابلہ کرتے رہے اور آخری گولی تک دونوں مل کر دشمن پر وار کرتے رہے، دونوں جانبازوں کا جاہ شہادت ایک فٹ کے فاصلے پر تھا اور دونوں کا لہو کو خشک زمین نے بھی راستہ دے کر ایک ساتھ ملایا اور اتحاد و دوستی اور قومی جذبے اور وطن دوستی کا مثال جو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہوگیا۔

بارگ اور دلجان اپنے وطن کی حفاظت اور وطن کی محبت میں آخری گولی اور آخری سانس تک ساتھ رہے اور آخری گولی کو حلق میں اتارنے تک ایک دوسرے کے ساتھ رہے. کوئی سوچ بھی نہیں سکتا اس منظر کے بارے میں کیسا ہوگا، وہ لمحہ جب دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ کر موت کو گلے لگایا ہوگا. ضیاء اور نورالحق مادر وطن کے ان سپوتوں میں سے تھے جو اپنے مقصد کے حصول کے لئے اپنی ہی آخری گولی اپنی ہی حلق میں اتار دیا.

نورالحق سے کبھی بھی ملاقات نہیں ہوا تھا، مگر ضیاء کیساتھ آخری دیدار کیلئے جب دیکھا تو ایسا لگا کہ صدیوں سے ہمارا رشتہ ہے، صدیوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں، آنکھیں بند اور ساتھ ساتھ خون آلود کپڑوں میں ایک ساتھ دونوں شہداء کی میت رکھی ہوئی تھی، جہاں مجھے ان شہداء کی پیشانیوں پر بوسہ دینے کا موقع ملا.

ضیاء جان کی جو مخلصی، ایمانداری اور مہر و محبت کو میں نے دیکھا تھا، اسکی مثال شاید صدیوں میں ملے. ضیاء کے سینے میں ہمیشہ قوم و وطن کیلئے دکھ، درد اور محبت پایا۔ میں نے نورالحق کو نہیں دیکھا تھا لیکن جب خون آلود کپڑوں میں دیکھ کر یہ محسوس کیا کہ نورالحق ضیا ہے اور ضیاء نورالحق ہے دونوں ایک ہیں، دونوں کی بہادری، مخلصی، خلوص اور جذبے کا زہری کے پہاڑوں سے لیکر شور کے پہاڑوں اور خاران کی تپتی صحرا تک سب گواہ ہیں۔

زہری کا وہ جگہ جہاں ضیاء اور نورالحق دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے، میں نے وہ جگہ دیکھا جہاں میدان تھا اور کچھ بھی نہیں. پہاڑ پر تو دشمن نے پہلے سے قبضہ کیا ہوا تھا اس میدان میں دشمن سے بہادری سے لڑے، جب نورالحق کے ٹانگ میں گولی لگی تو ضیاء جان نے اپنے کندھے پر اٹھاکر ایک چھوٹا سے درخت کے نیچے لے گیا اور وہاں سے آخری گولی تک دشمن سے لڑتے رہے. ضیاء اور نورالحق دشمن سے مقابلہ کرتے رہے، جب دشمن نے انہیں گھیر لیا تھا اور ساتھ میں پہاڑ پر پہلے سے دشمن موجود تھا تو ضیاء جان اور نورالحق نے آخری گولی تک دشمن کا مقابلہ کیا، جب گولیاں ختم ہوئیں تو پہلے سے ہی دونوں نے اپنے لیئے ایک ایک گولی چنا تھا اور اسی آخری گولی سے اپنی زندگی، اپنی سانسیں ہمارے اور ہمارے آنے والی نسل کیلئے قربان کیا اور تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگئے۔

جہاں، جس علاقے میں ضیاء اور نورالحق کی شہادت ہوئی وہاں سرکار اور سرکاری سردار کے ہاتھوں بہت سے بلوچ نوجوان اغواء ہوئے ہیں اور بہت سے نوجوانوں کو اغواء کے بعد شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اور بعد میں اسے شہید کرکے کسی ویرانے میں لاش کو پھینک دیا گیا ہے، اس علاقے کے لوگ ضیاء اور نورالحق کی بہادری پر حیران ہیں کہ انہوں نے کس طرح سرکاری سردار اور اس کے حواریوں کے باوجود ان کے ہوتے ہوئے بھی اپنا کام جاری رکھا اور لوگوں کو آزادی جیسی نعمت کے بارے شعور دیتے رہے۔

ضیاء اور نورالحق کی خود کے لئے آخری گولی نے مردہ انسانوں کو زندہ کردیا، خود کے لیئے خود کی آخری گولی کا چناؤ یہ ایک مضبوط نظریہ و فکر ہے، وطن سے محبت ہے، شہداء کے مقصد سے محبت ہے، جو اپنے آخری گولی سے اپنی داستان لکھ رہے ہیں، وہ داستان جو تا قیامت یاد رہیگا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔