خواتین کے حقوق کی قیمت پر طالبان سے امن سمجھوتا نہ کیا جائے – افغان خواتین

115
افغانستان میں طالبان کے سخت گیر دورِ حکومت میں مشکلات کا سامنا کرنے والی خواتین نے ملک کی سیاسی اشرافیہ پر زور دیا ہے کہ ان کے حاصل کردہ بنیادی جمہوری حقوق اور آزادیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور طالبان سے مذاکرات میں ان کے حقوق پر کوئی سمجھوتا نہ کیا جائے۔

افغان خواتین کے نیٹ ورک نے خبردار کیا ہے کہ طالبان سے معاملہ کاری میں ان کے حقوق کو ’’ سیاسی آلے‘‘ کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔

واضح رہے کہ طالبان نے 1996ء سے 2001ء تک اپنے دورِ حکومت میں لڑکیوں کے اسکول ، کالج جانے اور خواتین کی ملازمتوں پر پابندی عاید کردی تھی اور ان کی آزادانہ نقل وحرکت پر بھی قدغنیں عاید کردی تھیں جس کے پیش نظر ان سے مذاکراتی عمل پر اب افغان خواتین اپنے تحفظات کا ا ظہار کر رہی ہیں۔

طالبان سے دوحہ اور ماسکو میں حالیہ مذاکراتی عمل میں افغان خواتین کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے اور اسی وجہ سے ان کا کہنا ہے کہ اگر طالبان سے عجلت میں کوئی امن معاہدہ کیا گیا تو ان کے گذشتہ برسوں کے دوران میں بہ مشکل تمام حاصل کردہ حقوق پر سمجھوتا کیا جاسکتا ہے۔

کابل میں قائم خواتین نیٹ ورک کی رابطہ کار مشعل روشن کا کہنا ہے کہ ’’ان سیاست دانوں کو خواتین کو ایک سیاسی آلے کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ان ( طالبان ) کی واپسی ہوتی ہے اور وہ خواتین پر نئی پابندیاں عاید کرتے ہیں تو ہم ان کو قبول نہیں کریں گے‘‘۔

انھوں نے فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا :’’ گذشتہ سترہ سال کے دوران میں افغان خواتین نے سخت محنت اور جدوجہد سے بعض کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ہم انھیں ضائع نہیں کرنا چاہتی ہیں۔یہ ہمارا حق ہے کہ ہم اسکول جائیں یا کسی کام پر جائیں۔ہر کسی کو ہمارے اس حق کا احترام کرنا چاہیے‘‘۔

طالبان کے نمائندوں نے منگل اور بدھ کو روسی دارالحکومت ماسکو میں افغانستان کی معروف شخصیات کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں اور انھوں نے ملک کا نیا آئین مرتب کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔افغان شخصیات میں سابق صدر حامد کرزئی بھی شامل تھے ۔تاہم اس بات چیت میں افغان حکومت کا کوئی نمائندہ شریک نہیں تھا۔

ماسکو میں مذاکراتی عمل امریکا کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کے ساتھ طالبان کے مذاکرات سے الگ تلگ ہے ۔اس کا مقصد افغانستان میں گذشتہ سترہ سال سے جاری جنگ کا خاتمہ اور قیام امن ہے۔

افغان حکومت نے دوحہ کے بعد ماسکو میں بھی مذاکرات میں خود کو شریک نہ کرنے پر تنقید کی ہے ۔افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کو کسی بھی امن بات چیت میں مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماسکو میں اجلاس کی ایک مختلف شکل ہونی چاہیے تھی۔

عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ طالبان امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں لیکن اگر ماسکو اجلاس سے حقیقی امن بات چیت کی راہ ہموار ہوتی ہے تو یہ ایک اہم پیش قدمی ہوگی۔انھوں نے طالبان پر زور دیا تھا کہ وہ افغان حکومت سے براہ راست مذاکرات کریں۔ توقع ہے کہ اس ماہ کے آخر میں طالبان کے امریکی مذاکرات کاروں سے دوبارہ ملاقات کریں گے