کینسر زدہ بلوچستان – زہرہ جہاں

304

کینسر زدہ بلوچستان

زہرہ جہاں

دی بلوچستان پوسٹ

کینسر کو کون نہیں جانتا؟ بلوچستان والے اس موذی مرض سے بہت اچھی طرح آشنا ہیں۔ جنت نظیر دھرتی بلوچستان (1947 سے لیکر اب تک) میں ہر ذی روح کی سانس کینسر کے ساتھ شروع ہوتی ہے اور کینسر ہی پہ ختم ہوتی ہے. وہ الگ بات ہے کہ کچھ خوش قسمت, با ہمت, حقیقت پسند اور آزاد لوگ پیدا تو کینسر کے ساتھ ہی ہوتے ہیں لیکن سانسوں کا ساتھ چھوڑتے ہیں، کینسر کو مارنے کے بعد. انہی زور آوروں کی بدولت بلوچستان میں کینسر کسی حد تک ہار مان چکی ہے لیکن اب تک چالبازی اور ساز بازی نہیں چھوڑی۔

کینسر دنیا میں سب سے زیادہ مہلک اور بھیانک بیماری مانی جاتی ہے. اور کیوں نہ مانا جائے اسکا وار اور مار شدید سے شدید ترین اور خطرناک سے خطرناک ترین ہوتا ہے. میں ذاتی طور پہ اسے منافق ترین بیماری سمجھتی ہوں. کیونکہ اسکا ایک چہرہ نہیں بلکہ سینکڑوں شکل ہوتے ہیں، جو خوف سے خوفناک ترین ہوتے ہیں.

ذاتی زندگی کو ختم کرنا, سانس لینا اجیرن کرنا اور تڑپا تڑپا کے مارنا اس بیماری کا سمجھو پیشہ ہے.

آتے ہیں اصل مدعے پر کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پہ خبر چل رہی ہے کہ بلوچی زبان کے شاعر ظفر اکبر کے تیرہ سالہ بیٹے حمل ظفر کو کینسر نے اپنے لپیٹ میں لیا ہوا ہے. یقینا یہ ایک نہایت ہی افسوسناک اور پریشان کن بات ہے کہ جس عمر میں ہمارے بچوں کو کھلونوں سے کھیلنا چاہیۓ وہ کینسر سے زندگی اور موت کا کھیل رہے ہیں. جہاں تک میرا اندازہ ہے کینسر اب تک ہزاروں حمل جان ہم سے ضرور چھین چکا ہے. وہ الگ بات ہے ہمارے کشکول ان کے لیۓ اٹھتے ہیں جنکی آواز خدا ہم تک پہنچاتی ہے. ورنہ ہم جیسے “کر, کور, گنگ” بے حس اور غلام قوم کے کشکول خود کی ذات کے لیۓ اٹھے بھی بڑی بات ہے.

بلوچستان کے ہر گھر میں ایک کیسنر زدہ آدمی ضرور پایا جاتا ہے. کسی کو پھیپڑوں کا کینسر ہے، تو کسی کو خون کا کینسر ہے, کسی کو دماغی کینسر ہے، تو کسی کے سوچ کو کینسر ہے, کسی کو امیری کا کینسر ہے تو کسی کو غریبی کا کینسر ہے. لیکن ان سب میں جو سب سے خوفناک قسم کی کینسر ہے،جسکی وجہ سے پورا بلوچستان کینسرزدہ ہے, وہ غلامی کا کینسر ہے.

گوکہ بلوچستان کو غلام بنانے کی جنگ 1839 میں شروع ہوا لیکن اسکی تکمیل تب ہوئی جب بلوچ نوجوانوں نی اپنی بہادری اور طاقت کو نام نہاد سرداروں کے نام پہ زنگ آلود کروایا. جب نوجوانوں نے آزادی کے دستار کے اوپر غلامی کی تاج کو تقویت دی. جب حمل جیئند, لال شہید (میر محراب خان) اور ہزاروں شہداء کے سرخ خون کو سفید خون سے دھویا. غلامی کی زنجیر کو اپنے پاؤں کی زینت سمجھنے لگے. تب بلوچستان میں کینسر نے اپنے جھنڈے گاڑھنا شروع کردیۓ. اور ہر گذرتے دن کے ساتھ اسکی شدت میں اضافہ ہوتا گیا.

غلامی کا کینسر پہلے سے پھیل چکا تھا کہ, 28 مئی 1998 ست جسمانی کینسر بھی بلوچستان میں پھیلایا گیا.

آج جب غلامی کے کینسر کا اثر کم ہونے لگا ہے, نوجوان بے شعور سے باشعور ہونے جارہے ہیں تب جسمانی کینسر نے انھیں روڈوں پہ چندہ مانگنے پہ مجبور کردیا ہے یعنی آسمان سے گرے کجھور میں اٹکے. ہنسی اور افسوس تو تب ہوتی ہے، جب دیکتھی ہوں کہ بلوچستان کا مستقبل کینسر کے فیکٹری سے کینسر کی اینٹی وائرس (کینسر ہسپتال) اور مفت علاج کا مطالبہ کر رہے ہیں.

بھلا کوئی پاگل ہی ہوگا جو اپنے پیروں پہ خود کلہاڑی ماریگا یا اپنے کمائی کے راستے کو خود بند کریگا. کیونکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان بلوچستان سے چل رہی ہے.

سب کچھ جان کر بھی ہمارے نوجوان انجان بنے ہوۓ ہیں. اب یہ انکا ڈر ہے یا احساس محروم یا پھر غلامی؟ میں یہ نہیں کہتی کہ وہ حمل جان کے لیۓ شروع کیۓ گئے چندہ مہم کو بند کردیں یا کینسر کے خلاف آواز اٹھانا بند کردیں. بلکہ میں چاہتی ہوں کہ وہ جسمانی کینسر کے ساتھ روحانی کینسر (غلامی کی کینسر) کے خلاف بھی بر سر پیکار ہوں اور میدان میں آئیں، جیسے حمل جیئند, میر محراب خان, نورا مینگل, علی دوست زہری, نواب اکبر بگٹی, نواب خیر بخش مری,غلام محمد بلوچ, بالاچ مری اور جنرل اسلم بلوچ آۓ تھے. جس طرح ڈاکٹر اللہ نظر, گلزار امام, کامریڈ بشیر زیب, میر عبدالنبی بنگلزہی, سرفراز بنگلزئی, حیربیار مری اور انکے جانثار ساتھی آئے ہوئے ہیں. جس طرح میر احمد بلوچ , منھاج مختار آۓ ہوۓ ہیں. کیونکہ کوئی بیماری تب تک ختم نہیں ہوسکتی، جب تک اسے جڑ سے ختم نہ کیا جاۓ اور بلوچستان میں کینسر کا جڑ پاکستان ہے.

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔