وہ لاپتہ ہیں، ان کا فکر لاپتہ نہیں – سنگت شاہ وش بلوچ

262

وہ لاپتہ ہیں، ان کا فکر لاپتہ نہیں

سنگت شاہ وش بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ نیوز 

بلوچستان سے ہزاروں بلوچ نوجوان غائب ہیں، یہ ایک دیو مالائی کہانی یا افسانہ نہیں ہے یہ ایک زندہ حقیقت ہے، جبری طور پر گم کئے جانے والے افراد باشعور، زمہ دار، سنجیدہ سیاسی اور نظریاتی لوگ ہیں۔ ان کا تعلق بد قسمتی سے اس سیاست یا اس جدوجہد سے ہے، جس کے مقدر میں تکلیف اور اذیت کا ہونا کوئی اتفاق یا حادثہ نہیں، قوموں کی جدوجہد اس طرح کے قربانیوں سے بھری پڑی ہیں۔ تکلیف، دکھ اور اذیتیوں کا شمار ہی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ہمارے لئے نہ تو کوئی نیا تجربہ ہے، نہ ہی یہ پہلا ہوگا اور نہ ہی آخری اس طرح کے امتحانات اور آزمائشیں اور بھی آتی رہیں گی لیکن ان کا مقابلہ مصلحت، تذبذب یا خوف کے ساتھ بالکل بھی نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی مصلحت یاپیچھے ہٹنے کی صورت میں یہ اذیتیں ختم ہوجائیں گی۔ ازیتیوں کا احساس تو ہم جیل سے یا گمشدگیوں سے ہٹ کر بھی کرسکتے ہیں، ہم حراستی تکلیفوں سے ہٹ کر بھی غلامی کے کرب جھیل رہے ہیں۔

غلامی سے زیادہ کوئی ذلت اور تکلیف شاید ہی کوئی ہو، آزادی کے لیئے اس پل صراط کو عبور کرنے کا امتحان ہمارے ہی حصے میں آنا ناگزیر تھا، ہر سرگرم باشعور انسان جس کو اپنے قوم کے مستقبل آزادی اور شناخت کا احساس ہے، وہ بے چین ہوگا، اس کی بے چینی اس وقت ختم ہوسکتی ہے جب وہ اپنے وطن کو آزاد کرے گا، پیچھے ہٹنا، مطالبات کو کمزور بنانا، جرئت میں کمزوری لانا، پارلیمانی فریبوں میں آنا یا نیم پسپائی اختیار کرنا یہ حکمت عملی نہیں بزدلی ہوگی۔ ہم براہ راست یا بلواسطہ ان لوگوں کے ساتھ انصاف نہیں کررہے ہونگے جو ہمارے درمیان نہیں ہیں، جنہیں ہمارے بیچ سے اٹھاکر غائب کیا گیا یا جو شہید کئے گئے، ان کی سوچ، ان کے نظریات ان کا حوصلہ اور ان کے تناظرات کا اس صورت میں ہم منصف نہیں بن سکتے۔ وہ لوگ جو اٹھائے گئے ہیں، وہ نظریاتی تھے ان کا ایک کمٹمنٹ ہے، وہ باشعور تھے، وہ جانتے تھے کہ ان کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے، ان کے سامنے دنیا کے ڈھیر سارے تحریکوں کے تجربات تھے، مثالیں تھیں، وہ ذہنی طور پر آگاہ تھے، سر پد تھے کہ اگر وہ بلوچ قوم کی آزادی کی بات نہیں کریں گے تو طاقتور کا یہ خوف طاقتور کے یہ ہتھکنڈے بلوچ قومی غلامی کے عمر کو طول دینے کے سوا کچھ نہیں ہوگی۔ ان کی خاموشی اور لاتعلقی سے اس قوم کے عذاب میں اضافہ ہوگا، ان کی بھی زندگیاں تھیں، ان کی تمنائیں تھیں، ان کے بھی خاندان تھے، ان کے بھی رشتے تھے، وہ بھی ایک لگژری زندگی گزار سکتے تھے، ان پر بھی خاندان کی زمہ دار یاں تھیں، وہ چاہتے تو ایک آرام دہ زندگی گزار سکتے تھے لیکن وہ جانتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ اس عمل سے ان کی ذاتی زندگی میں کچھ آرام و سکون یا معاشی خوشحال آسکتی تھی لیکن پوری قوم کے دکھ درد کا ازالہ ناممکن تھا۔ قوم تکلیف میں رہتی، زبوں حالی میں رہتی اور وہ غلام رہتے اگر وہ سمجھوتہ کرتے تو سمجھوتے کی اس صورت میں پوری قوم غلامی کے اس خودکشی کے عمل سے صدیوں گذر جانے کا عمل جاری رہتا، جس طرح غلامی کا تسلسل تھا، یہ تسلسل بغیر کسی رکاوٹ کے اور تیزی کے ساتھ جاری رہتا، نہ تاریخ رہتا، نہ پہچان، نہ شناخت بس ہمارا جنم تاریخ میں ایک اور ریڈ انڈین کی طرح ہوتا۔

وہ جانتے تھے کہ جتنی زیادہ سکوت ہوگا، اتنی ہی غلامی ابھرے گی، ایک ایسا وقت آئیگا کہ لوگ غلامی اور آزادی میں فرق کو ہی نہ پہچانیں، وہ غلامی میں فخر محسوس کرے کہ وہ آزاد ہے، ان کی تاریخ کا نام و نشان نہ ہو، وہ طاقتور کے مسلط کردہ تاریخ اور شناخت کو اپنی شناخت سمجھیں گے، ایک فکر، جن کے شعورمیں ایک ابال پیدا کرے، آج وہ گم ہیں لیکن ان کا سوچ گم نہیں ہے، ان کا نظریہ گم نہیں، یہ بیداری، یہ آگاہی، یہ حاصلات کیا ان کی انتھک قربانیوں کاثمر نہیں ہیں کہ آج بلوچ سماج کے ہر خاندان سے کوئی کسی نہ کسی طرح تحریک کا حصہ ہے؟

ہماری مائیں، بہن، بیٹیاں اور سماج کا ہر رشتہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، ٹھٹھرتے سردی اور یخ بستگی میں ماؤں اور بیٹیوں اور بچیوں کا احتجاج کیا ایک فتح مند ابھار نہیں ہے؟ سماج کا ہر ایک اکائی اس راستے سے آشنا ہے۔ یہ لمحات تکلیف دہ بھی ہے اور اذیت ناک بھی لیکن یہ غیر معمولی حالات ہیں، بلوچ سماج تو اپنے روٹین پر چل رہاتھا، پالیمانی پارٹیوں اور ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر تھیسز دینے والے کل بھی تھے اور آج بھی ان کا جوش خطابت دیدنی ہے لیکن بلوچ سماج میں ان کی تقریروں سے کوئی طوفان یا بھونچال کیوں نہیں آیا؟ ان کے سیاست نے معمولی لمحات کوکیوں غیر معمولی لمحات میں تبدیل نہیں کیا؟ اصل میں وہ غلامی پر بیعت کرچکے ہیں، وہ بلوچ قوم کے پیشانیوں سے داغ غلامی مٹانے کے بجائے غلامی کے اس نشان کودائرہ لگاکر مضبوط کررہے تھے، تحریک اور جدوجہد کے نام پر عوام کو صرف ووٹ کارڈ کے طور پر استعمال کرتے تھے لیکن اس کے برعکس انہی چند نوجوانوں اور نظریاتی کیڈروں نے حالات کا رخ تبدیل کیا، ان کی ناقابل تسخیر ردعمل اور سخت گیر جدوجہدنے بلوچ سماج کو ایک مرکز اور سمت دی، ان کی عبوری کوششیں آج فیصلہ کن عہد کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ آج ایک مرکز کی حیثیت سے بلوچ قوم کا کردار بڑھ گیا ہے، جبکہ الیکشن سیاست کے دلداہ نام نہاد قوم پرستوں نے قوم اور سماج کو سیاسی ذہنی اور تاریخ طور پر تقسیم کرچکے تھے۔ ان کا مقصد ربر سٹیمپ پارلیمنٹ تھی، انہوں نے بلوچ جدوجہد کا مورال گرایا تھا، انہوں نے قوم کو ایک مرکز اور جتھے میں جمع کرنے کے بجائے علاقوں اور ڈویژنوں میں تقسیم کرچکے تھے۔ آج ان کی جانب سے جبری طور پر گمشدہ بلوچ فرزندوں کے لے احتجاج کا راستہ اختیار کرنے والے ماں بہنوں سے اپیل کیا جاتا ہے کہ وہ گھر میں بیٹھے رہیں، کیا بلوچ عورت کا کردار صرف گھر تک محدود کیا جائے؟ ان سے احتجاج کا حق چھین لیا جائے؟ کیا وہ بلوچ سیاست کا حصہ نہیں بن سکتا؟ کیا اسے آج بھی گھریلو عورت کے روپ میں دیکھنا ضروری ہے؟ بلوچ جدوجہد نے ان کی ذمہ داریاں بڑھادی ہیں، یہ ایک خام دلیل ہوگی کہ بلوچ عوام اس تاریخی عمل سے دور رہیں، حالات اور جدوجہد آج ہر ایک اکائی کو دوسرے اکائی سے جوڑ رہے ہیں۔ کیا یہ تاریخی کامیابی نہیں آج ان کی طاقت اور احتجاجی عمل سے ریاست خوف زدہ ہے؟ ان کے طاقت کے مظاہرے نے ریاست کے لئے پریشانی اور بد گمانی پیدا کی ہے، ان کے احتجاج اور دھرنوں کو روکنے کے لئے مذاکرات کئے جانے تک ریاست پہل کررہی ہے۔

ہزاروں سے چند ایک کو بازیاب کرنے اور دکھانے سے کیا ہمیں مطمئین کیا جاسکتا ہے؟ کیا ہمارا احتجاج، آنسو، چیخ اور کرب کا جواب یہی ہوگا؟ لیکن کیا ہماری جوابی ردعمل ہزاروں گمشدہ افراد کی بازیابی کی موقف میں ترمیم لفظ مرحلہ وار کا استعمال اور ایک سو ایک لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ اور احتجاج کو معطل کرنے کا عمل وہ بھی اقوام متحدہ کی صدرکے دورہ کے عین موقع پر کیا یہ درست موقف ہوگی یا ان بیٹیوں، بہنوں کو جنہوں نے اپنے سماجی بندھنوں اور اپنے خونی رشتوں سے بے پرواہ ہوکر مسلسل احتجاجی عمل میں شریک رہے ہیں یا جو اپنے گھر خاندان اور رشتہ داروں سے الگ ہوکر جدوجہد کا راستہ چنا ہے، انہیں گھر بٹھانے کی راہ دینا یا انہیں واپس گھروں میں چلے جانے کے لئے دباؤ ڈالنا، کیا یہ ان کی قربانیوں کا صلہ ہے؟ کیا وائس فار مسنگ پرسنز کی تنظیم میں ایک مخصوص رویہ اجارہ دارانہ سوچ جنم نہیں لے رہا، کیا لاپتہ افرد کا مسئلہ صرف علاقائی ہے؟ میرے خیال میں یہ علاقائی سے زیادہ بین الاقوامی ہے یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس کاحل اس ریاست سے زیادہ اقوام متحدہ کے پاس ہے یہ خالص انسانی مسئلہ ہے یہ کسی مخصوص تنظیم کا ایجنڈا نہیں ہے۔

شدید عوامی ردعمل کے بعد مسنگ پرسنز کے نمائندہ تنظیم نے ایک دفعہ پھر کیمپ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے، جو خوش آئند ہے لیکن ایک مستقل طریقہ کار، پالیسی ، لائحہ عمل اور ٹھوس حکمت عملی یا پروگرام کی تشنگی ابھی باقی ہے۔ دوسری جانب مسنگ پرسنز کی بازیابی کے لیئے احتجاج کرنے والے خواتین، جو مسلسل احتجاجی عمل کا حصہ ہیں، انہیں گھر بیٹھنے کا کہنا۔ ہم نہیں چاہتے اور نہ ہماری نیت یا ارادہ ہے کہ ہم بار بار ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوں اور سوشل میڈیا میں ایک دوسرے کا گریبان پکڑیں لیکن ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جو بہن اس جدوجہد میں شریک ہے اور تسلسل کے ساتھ اس احتجاجی عمل کا حصہ ہے، انہیں تنظیم اور جدوجہد کا حصہ سمجھنا چاہیئے، ان کی آراء اور مشورہ، صلاح اور رائے کو اہمیت دینا چاہیئے۔ ان کی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالنے اور انہیں دیوار سے لگانے کی نیت غلط حکمت عملی ہوگی یا ان سے کہنا کہ وہ تنظیم کا ممبر نہیں ہے یا تنظیم کا حصہ نہیں ہے، یہ درجہ بندی اور فرق کیوں؟ کئی سالوں سے وہ بہن اور بیٹیاں جو اس تحریک کا اہم بازو رہے ہیں، آج ان سے یہ کہنا کہ کیمپ میں بیٹھنے کے بجائے وہ گھر جائیں، کیا ان کا جمہوری حق نہیں بنتاکہ وہ کمزور فیصلوں پر سوال اٹھائیں؟ کمزور پالیسیوں پر اپنی آراء دیں، یہ رویہ بلوچ رضاکار کارکنوں کے کردار سے بالکل متصادم ہے، ایسے رویوں سے پرہیز کرنا چاہیئے، بلوچ قوم کے ہر سیاسی باسک کو انتہائی اہم اور تکلیف دہ تجربات کا سامنا ہے، ایسے میں مایوسی اور بزدلی پیدا کرنے کے لئے سازگار ماحول بنانا درست قدم نہیں ہے، ہم ایک دوسرے کا تسلسل ہیں، یہاں کوئی ریس یا کریڈٹ کی بات نہیں ہے، ہم کسی دوڑ یا مقابلے میں شریک نہیں ہیں، یہ جدوجہد ہے، یہ کوئی کھیل نہیں ہے۔ یہاں احتیاط، صبر، مہر، تنقید ،سوال اختلاف رائے ، مشاورت مباحثہ اور جدوجہد ساتھ ساتھ چلتے ہیں لیکن کسی کی تذلیل درست عمل نہیں ہوگا۔

یہ رویہ قومی یکجہتی کے لئے نقصان دہ ہے، دوسری طرف لاپتہ افراد جو ہزاروں کی تعداد میں جبری طور پر لاپتہ کئے گئے ہیں، دوچار کا بازیاب ہونا خوشی کی بات ہے لیکن یہ ہزاروں کے حساب سے بلکل معمولی، انتہائی معمولی پیش رفت ہے۔ مسنگ پرسنز کی تنظیم کا طریقہ اور لائحہ عمل میں ہم آہنگی ہونی چاہیئے، طریقہ کار اور لمبے عرصے کے لیئے حکمت عملی میں تعلق کے ساتھ جدت اور سنجیدگی ہونی چاہیئے، طریقہ کارکا قومی جدوجہد اور قومی مقصد سے مطابقت ہوناچاہیئے، یہ کہنا کہ ہم غیر سیاسی ہیں، یہ ایک روایتی سوچ ہوگی، کیا مسنگ پرسنز جو لاپتہ ہوئے وہ سیاسی نہیں تھے یا ان کا بلوچ سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا؟ کیا سیاست یا جدوجہد کسی انسان کا حق نہیں؟ کیا سیاست یا سیاسی عمل شجر ممنوعہ ہے؟ ہر احتجاج کرنے والا سیاسی ہے، ہر آواز اٹھانے والا سیاسی ہے، سیاست ایماندارانہ جو منافقت سے پاک ہو، وہ راہ نجات کا ایک شاہراہ ہے، وہ ایک سنگ میل ہے، ہر وہ عمل سیاسی ہے جو ہماری نجات کے لئے ہویا کسی کی بازیابی کے لیئے۔

مسنگ پرسنز کے جدوجہد کے ساتھ انصاف کا تقاضہ یہ نہیں ہے کہ ہم قسطوں میں فہرست اٹھاکے دیں، کہ پہلے ان کو بازیاب کرو ہزاروں کے قسط میں کتنے سال اور بیتیں گے، وہ لاپتہ افراد جو ہماری نظر میں لاپتہ ہیں، کیا انہوں نے اذیتوں کا راستہ اس لیئے چنا کہ آج ہم انہیں صرف لاپتہ سمجھیں، وہ لاپتہ نہیں وہ ایک فکرکے علمبردار ہیں، وہ جنہوں نے بلوچ سماج کو اپنے خون اور پسینے سے توانائی طاقت اور تراوٹ دی، آج وہ زندان میں ہیں، تکلیف سہہ رہے ہیں، کیا وہ پاگل تھے؟ وہ جذباتی تھے؟ وہ اوباش تھے یا وہ حقائق اور انجام سے بے خبر تھے؟ نہیں تاریخ بار بار کہہ رہاہے ان کی ذہنی اور علمی صلاحیت کا سطح بلند ہے، وہ عالم و دانشور ہیں، آگاہ ہیں، وہ ہمارے کیڈر، ہمارے رہنماء اور لیڈر ہیں۔ ان کا کردار، انکی جدوجہد تاریخی عمل میں بروقت اور بر محل ہے، ان کے احساسات، ان کی سوچ، ان کے جذبات باشعور تھے، وہ ایک تاریخ بنانے جارہے ہیں، وہ ایک مستقبل کی تعمیر کررہے ہیں، وہ ایک روشن مستقبل کے خواب لیئے تاریخ کے اس آتش دان میں کود پڑے ہیں۔

وہ پارلیمنٹ کے فریبوں سے واقف لوگ تھے، یہ لاپتہ لوگ لاپتہ نہیں ہیں، میری گلزمین کے دیس وادی جو بھی اپنی آزادی شناخت اور سرزمین کی بات کرتاہے تو وہ گم کیا جاتاہے، بس یہی ان کا گناہ، یہی ایک قصور، یہی ایک جرم ہے، جس کے سزا کے طور پر انہیں لاپتہ کیا جاتا ہے لیکن یہ لاپتہ نہیں، یہ گم نہیں، لاپتہ وہی ہوتے ہیں جن کے بارے میں معلومات نہ ہو، شواھد نہ ہوں، ثبوت نہ ہوں، حقائق نہ ہوں، ان کے بارے میں معلوم ہے کہ کس کے تحویل میں ہیں، کس نیت سے اٹھایا گیا ہے، وہ کونسے ارادے اور پالیسیاں اور طاقت ہیں جو سالوں ہمارے بھائیوں کو سورج کی کرنوں سے بھی چھپا رہے ہیں، کالی اور تنگ حراست گاہوں میں انہیں کیوں پابہ زنجیر کیا گیا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔