مسخ شدہ لاش کی کہانی – پیادہ بلوچ

212

مسخ شدہ لاش کی کہانی

پیادہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اس دنیا میں سب کی طرح وجود میں آنے کے بعد میرا بچپن ایسے گذرتا گیا، جیسے تم سب کی گذرتی ہے، بچپن کا کھیل کود، ہمسروں کے ساتھ کچھ خوشی اور کچھ امیدیں دل میں بسا کر عمر کی بالائیوں کو چھوتا ہوا بالکل تمہاری طرح آگے بڑھتا گیا۔

ماں باپ، بھائی بہن، ہمسائے و رشتہ داروں کے درمیان لاڈ و پیار کے ساتھ بڑا ہوا، وہ خوشی اس وقت شاید آپ کو بھی نصیب نہ ہو مگر مجھے بخوشی مل رہا تھا، زندگی کے ہر پر سکون آسائشیں میسر تھیں۔

ہر روز الگ سے کپڑے زیب تن کیا کرتا تھا، لذیذ کھانوں کا خوشبو میرے گھر کے آنگن میں گردش کرتا رہتا تھا۔ بچپن میں سائیکل، پھر موٹر سائیکل اور پھر گاڑی میرے گھر کے دہلیز کے زیر سایہ کھڑے ہوا کرتے تھے، ہر موسم کا پھل مجھے وقت پر موصول ہوتا، جنت جیسی دھرتی پر میرا بھی اچھا خاصا گذارا ہوا کرتا تھا۔

بالکل تمھاری طرح علم جو کہ انسان کی تیسری آنکھ کا درجہ رکھتا ہے کافی حاصل کرچکا تھا۔ فرق یہ تھا کہ میں نے اپنے علم کو صرف بحیثیت نوکر یا دو وقت کے روٹی کیلئے حاصل نہیں کیا کیونکہ ایک تعلیم یافتہ اور با ضمیر انسان بھوکا تو رہ سکتا ہے مگرکسی کے ساتھ ظلم اور ناانصافی ہوتے ہوئےدیکھ کر کبھی پر سکون نہیں رہ سکتا۔

میں بھی بازار جایا کرتا تھا، تمہاری طرح ہوٹلوں پر بیٹھ کرچائے پیا کرتا تھا، اتنے کم عمر میں میرا زندگی تم لوگوں کی زندگی سے کئی گنا حسین تھا۔ مگر مجھ میں اور تم میں بہت فرق تھا اور وہ فرق ضمیر کا تھا۔

میں بازار کیلئے نکلتا تو مجھے راستے میں ہر دس منٹ کے فاصلے پر قابض ریاست کے قائم چوکیاں نظر آتے، جو مجھے انتہائی ناگوار محسوس ہوتے۔ میں اس وقت تکلیف محسوس کرتا، جب پانچ سو کلو میٹر دور سے آیا وردیوں میں ملبوس شخص میرے اپنے دھرتی پر میرا شناخت دریافت کرتا۔

میرے وطن کے وسائل پر پلنے والے، میرے گوادر کے نام پر دنیا سے خیرات لے کر پنجابی قصائیوں کو انسانی اعضاء کھلانے والے، ریاست کو تقویت پہنچانے والے، پچھلے کئی برسوں سے میرے وطن پر قابض ہوکر آج مجھے دنیا کے سامنے دہشت گرد کے خطاب سے نوازتے ہیں، اور خود کو صادق اور امین کا لقب دیکر مدینہ کے نام پر نام نہاد جمہوری ریاست کے پالیسیوں کے پس پردہ دنیا میں ظلمت کا بے تاج بادشاہ بنکر اتراتا ہے، جس کے قانون میں پوری انسانیت کی تذلیل کی جاتی ہے، اس بات نے میرے بدن کو نوچ لیا تھا۔

میں اس وقت بہت تکلیف محسوس کرتا، شاید اس حد تک دشمن کے عقوبت خانوں میں بھی نہ سہا ہو، جتنا میرے آس پاس اور میرے وطن کے کونے کونے سے ماں بہنو ں کی چیِخ و پکار کی آوازیں میرے دل کو خستہ کردیتے اور اس سے زیادہ تکلیف اس وقت ہوتا جب میرے علاقے کے امیروں و نوابوں کو اپنے ہی علاقے کے باشندوں کو جھوٹی تسلیاں دیتے دیکھتا۔

مجھے اس وقت بھی بہت تکلیف ہوا، جب قابض ریاست کے لمبے بوٹ والے شخص کو میرے ہی محلے کے سکول کا پرنسیپل بنایا گیا اور میرے ہمسائے اور ایماندار استاد کو بیدخل کیا گیا۔ اس فکر نے میرے خواب میں بھی آکر مجھے جگایا تھا کہ یہ وقت بیداری کا ہے جو تم خوابِ خرگوش میں محو سورہے ہو۔

یہی فرق تھا مجھ میں اور تم میں کہ تم نے اپنی بے ضمیری سے دشمن کے صحبت کو اختیار کرکے اپنے لیئے خوشامد کو ترجیح دی اور میں نے اپنے گذرے کل کے آسائشوں کو ٹھکرا کر آنے والے کل کے خطرے کو مول لیا، صرف اس لیئے کہ میں اپنے آنے والے نسل کو تکلیف دہ زندگی سے آزادی دلا سکوں، جس کیلئے میرے گذرے کل کے سکون سے، دشمن کی کال کوٹھڑی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ میں اپنے جان کو آنے والے نسلوں کا مشعل بنا کر چلا گیا۔

تمھارے اور میرے بیچ کے اسی فرق نے مجھے آج دس لاشوں میں سے ایک لاش بنایا، وہ بھی دشمن پاکستان کے اذیتوں اور ٹارچروں کی وجہ سے آج میں ناقابل شناِخت ہوکر لاوارث لاش بنا ہوں اور غیر کے ہاتھوں دفنایا جارہا ہوں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔