ماما نجیب ایک جہدکار – چاکر بلوچ

297

ماما نجیب ایک جہدکار 

چاکر بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ 

انسان جب بھی فکر غلامی میں مبتلا ہوتا ہے تو وہا یک ہی راستے کا انتخاب کرتا ہے اور وہ بہترین راستہ مسلح جہدوجہد کا راستہ ہوتا ہے۔ اگر انسان ایک چیز پر غور کرے جب کبھی بھی ظالم نے مظلوم کو دبانے کی کوشش کی ہے مظلوم کا مثال ایک اسپرنگ کی طرح رہا ہے، اسپرنگ کو آپ جتنا پریس کروگے وہ اتنی تیزی سے واپس اپنے ہدف کی طرف آتا ہے اور وہ مزید زیادہ طاقت کے ساتھ دباو کے مدمقابل ہوتا ہے۔

یہودیوں (Jews) کی تاریخ دوسری جنگ عظیم کے دوران، آپ سب کے سامنے ہے، ہٹلر نے انہیں ختم کرنے کا سوچا تھا لیکن وہ آج پوری دنیا پر راج کر رہے ہیں۔ اسی طرح ریاست کی ہمیشہ منفی خیام خیالی رہی ہے کہ میں چند بلوچوں کو ماروں گا یہ کہانی یہیں ختم ہوگا، بلوچ آج دشمن کے خلاف آگ کی طرح ابھر رہے ہیں۔

دشمن جب نواب نوروز زرکزئی کو شہید کرتا ہے، اس کے پیچھے بالاچ مری، استاد اسلم اور ڈاکٹر اللہ نذر کھڑے ہوتے ہیں۔ جب دشمن بالاچ اور استاد اسلم کو شہید کرتا ہے تو ان کے پیچھے وطن کی دفاع کے لیئے آج ہزاروں بلوچ نوجوانوں نے پہاڑوں کا انتخاب کیا ہے اور اپنے سرزمیں کا دفاع کررے ہیں، آج تعلیم یافتہ نوجوان بھی دشمن کو شکست دینے کے منصوبوں میں مصروف عمل ہیں۔

ماما نجیب سے میرا ملاقات شور کے تاریخی پہاڑوں میں ہوا، جو سنگت امیر الملک اور سنگت حق نواز جیسے مادروطن کے دلیر فرزندان کا جگہ رہا ہے، وتاخ میں مجھے کچھ دن ہوئے تھے اور کافی نئے چہرے سامنے تھے، ایک دن صبح کے وقت مخابرے پر چند دوستوں کی آنے کا اطلاع ہوا، دوستوں نے کہا گشت سے چند سنگت آرہے ہیں۔ کچھ دیر بعد چار دوست وتاخ میں داخل ہو ئے، ان میں ایک سفید ریش شخص بھی تھا جس کو سب سنگت ماما نجیب کہہ کر پکار رہے تھے۔ ماما سے قریب ہونے کو کچھ دن ملے، ماما بالکل ایک خاموش مزاج اور کم بولنے والے انسانوں میں سے تھا اور اپنے زمہ داریوں میں مصروف رہتا تھا، بقول سینئر دوستوں کے ماما علاقے کے بارے میں کافی جانکاری رکھتا تھا اور 2005 سے تنظیم کے پلیٹ فارم سے اپنے خدمات مخلصی اور ایمانداری سے سرانجام دے رہا تھا، مجھے وہ دن آج بھی اچھی طرح یاد ہے، جب میں وتاخ سے رخصت ہورہا تھا، ماما نیٹورک پر گیا ہوا تھا اور میں نے سب دوستوں کو گلے لگا کر رخصت کیا، ماما مجھ سے کافی دور تھا اور دوستوں کو جلدی بھی تھا، میں نے دور سے ماما کو آواز لگا کر رخصت کیا کہ ماما میں واپس جارہا ہوں، ماما نے مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا “اللہ کمک.”

آہ ماما نما یاداک! کل میں جیسے ہی سوشل میڈیا پر آیا تو اچانک ماما نجیب کے تصاویر میرے سامنے سے گذرے اور بی ایل کا بیان پڑھا کہ ماما نجیب اپنے ایک ساتھی آصف کے ساتھ خاران کے علاقے لجے میں دشمن کے ساتھ ایک جھڑپ میں جام شہادت نوش کرگئے ہیں اور دشمن کو بھی کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ آج اگر اس راستے پر ماما نجیب اور سنگت آصف شہید ہوتے ہیں تو کل ہمیں انکا توفک اٹھانا ہوگا اور ہمیں ماما نجیب، سنگت رازق اور ہزاروں دوست جو شہید ہور ہے ہیں ان کے جگہوں پر آکر ان کی ذمہ داریوں کو آگے لے جانا ہے اور ہمیں بھی اپنے سر اپنے شہیدوں کے سامنے بلند کرنا ہے اور سرخرو ہونا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔