عظیم سپاہ سالار جنرل اسلم بلوچ – شئے مرید

463

عظیم سپاہ سالار جنرل اسلم بلوچ

شئے مرید

دی بلوچستان پوسٹ

دُنیا میں کسی بھی جاندار (چاہے وہ چرند، پرند، درند ہو )کے نزدیک سب سے قیمتی اور عزیز شے اُسکی زندگی ہوتی ہے۔ جب بھی اُسکی زندگی کو خطرہ لاحق ہوجائے تو وہ اپنی زندگی کے بقاء کےلئے جدوجہد کرنا شروع کرتا ہے اور مزاحمت کی راہ اختیار کرتی ہے۔ اور زندگی کو فناء کی طرف لے جانیوالی شے موت کو کسی بھی صورت بخوشی قبول نہیں کرتا ہے۔

لیکن ان تمام جانداروں میں انسان جس کو اشرف المخلوقات کے خطاب سے نوازا گیا ہے، جو ذی شعور ہوتا ہے اور عقل و فہم رکھتا ہے۔ جس میں شعور کی بنیاد پر اپنے ماحول کے ہر اچھے اور برے چیز کی بارے میں جاننےکی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ لہٰذا ایک انسان سے بہتر زندگی کی اصل معٰنی قیمت اور اہمیت سے کوئی دوسرا مخلوق واقف نہیں ہوسکتا۔ زندگی ہر انسان کی اپنی ایک سوچ ہے۔ اس کا کوئی بھی صورت اختیار کرنا، ہر انسان کے اپنی عقل اور عمل کے تابع ہوتا ہے۔ لیکن ایک باشعور انسان کے پاس اپنی زندگی کی راہیں متعین کرنے کے لئے ایک خاص مقصد کا ہونا لازمی ہے، جس سے یہ پتہ چلے گا کہ اُس کی زندگی کس سمت میں محوِ سفر ہے۔ ایک ایسا شخص جو اپنی زندگی کو ایک خاص مقصد لیکر بسر کرتا ہے، وہ بڑی سے بڑی مشکل کو برداشت کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ ایک جرمن ماہر نفسیات ڈاکٹر وکٹر فرانکل جنہوں نے جرمن نازیوں کے ہاتھوں اذیت بھی سہا لکھتا ہے “میرا دعویٰ ہے کہ جو بات انسان کو کٹھن حالات کو برداشت کرنے کی سب سے زیادہ قوت دیتی ہے، وہ یہ علم ہے کہ اُس کی زندگی کا ایک خاص مقصد ہے۔”

جب کسی مظلوم و محکوم قوم سے تعلق رکھنے والا کوئی باشعورشخص ایک نظریہ اور فکر کے تحت انسانی سماج میں ظلم و جبر اور محکومیت کے خلاف انسانیت کی سربلندی کےلیئے جدوجہد کو اپنے زندگی کا مقصد بنالیتا ہے، تو اس قدر عظیم مقصد کے پانے کی جدوجہد کے بدولت وہ شخص عظمت کی بلندیوں پر پہنچ کر دنیا میں ایک عظیم انسان ہونےکا رتبہ حاصل کرتا ہے۔

قومی آزادی کے فکر و نظریئے سے لیس بلوچ قوم کے ہزاروں باعلم و باشعور فرزندوں نے ایسے ہی مقصد لیئے قومی محکومیت اور نوآبادیاتی لوٹ مار اور استعماریت سے نجات پانے اور غلامی سے آزادی حاصل کرنے لئے اپنی بیش قیمت زندگیوں کو قربان کیا ہے۔ اور کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے جب تک کہ وہ اپنے مقصد کے حصول میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوجاتے اور انسانیت کی تکمیل نہیں ہوتی۔

آج کے اس تحریر میں ایک ایسے ہی عظیم ہستی کے بارے میں کچھ لکھنے کی جسارت کررہا ہوں، جس نے بلوچ قومی آزادی کے حصول کو اپنے زندگی کا مقصد بنا کر اس راہ پُرخار میں اپنے لعل کو قربان کرنے سمیت اپنی بیش قیمت زندگی کو بھی قربان کیا۔ لیکن اس کی سوچ و فکر، تعلیمات، اور مثالی جدوجہد ہمارے لیئے اور آنیوالی نسلوں کےلئے ایک مشعل راہ ہے۔ اور وہ عظیم ہستی شہید جنرل اُستاد اسلم بلوچ ہے جو حالیہ دنوں یعٰنی 25 دسمبر 2018 کو مکار پنجابی دشمن کے ایک بُزدلانہ حملے میں اپنے پانچ اور جانثار ساتھیوں سمیت شہید ہوئے۔ جن میں شہید سگارِ بلوچ کمانڈر رحیم مری بلوچ، شہید سنگت سردرو مری، شہید ماما اختر شاہوانی عرف روستم، شہید سنگت امان اللہ عرف صادق بلوچ اور شہید فدائی بابر مجید عرف سنگت فرید بلوچ شامل ہیں۔ یقیناً جنرل اسلم بلوچ جیسے عظیم ہستی کے عظمت اور شان کو بیاں کرنا مجھ جیسے ادنیٰ اور کم علم شخص کی بس سے باہر ہے۔ اور شاید میرے الفاظ اسکے عظیم الشان کردار سے انصاف کرپائیں۔ کیونکہ میرے الفاظ اُس کے کردار کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں۔

استاد لفظ خود میں ایک بہت بڑا لفظ ہے اور جس عظیم ہستی کو استاد کا خطاب ملا ہو تو ایسے عظیم ہستی کی عظمت و کردار پر لکھنا اور بیان کرنا بہت مشکل کام ہے۔ پھر بھی کچھ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں، اگر کہیں کوئی کمی کوتاہی سرزد ہو تو کم علم سمجھ کر درگزر کردیجئے گا۔

شہید جنرل اسلم بلوچ قومی تحریک کا ایک درخشاں ستارہ ہے۔ جو کالے آسمان کے بلندیوں اور وسعتوں میں تا ابد چمکتا رہے گا۔

آج اُستاد کے بچھڑنے پر مادر وطن کا ہر ایک گوشہ، ہر ایک کوہسار، وادیاں، ریگستان اور سمندر بھی ماتم کناں ہیں۔ بحرِ بلوچ کی آنکھوں میں ایک طلاطم ہیں۔ گوادر اور پسنی کے ساحلوں پر موجوں کی ایک طوفان برپا ہے۔ دشت کا ہر ایک سُرخ گواڑخ مرجھایا ہوا ہے، ہنگول کے گلزار وادیوں کی پھول، تتلیاں اور پرندے افسُردہ ہیں۔ سب سے زیادہ ماتم کناں اور بولان کے وہ سنگلاخ کوہسار، چٹانیں اور وادیاں ہیں جو ہمیشہ اپنے بہادر بیٹے کو دیکھ کر خوشی سے کھِلکھلا اٹھتے تھے، اور بولان کی وہ گُذر گاہیں ہیں بھی اداس ہیں، جہاں ہر سمت اُستاد کے قدموں کی چاپ اور لمس کی خوشبو بکھری ہوئی ہے۔

جنرل اسلم بلوچ پنجابی استعماریت اور قبضہ گیریت کےخلاف اور اپنے وطن کی آزادی، قومی بقاء، تشخص اور قومی وقار کی حفاظت کےلئے سر پر کفن باندھ کر مرنے اور مارنے چل نکلا تھا۔ اس کا فلسفہ بھی یہی تھا کہ “ہم آزاد وطن یا مرگ شہادت کے فلسفے پر عمل پیرا ہیں” اور جنرل اسلم بلوچ نے اپنے کردار و عمل سے ثابت کر دکھایا کہ وہ اس سرزمین کا ایک مخلص اور بہادر بیٹا ہے۔ شہید جنرل اسلم بلوچ نے بحثیت ایک جہدکار ساتھی کے بلوچ قومی تحریک میں قومی آزادی کے فکر و نظریئے کے تحت اپنی جدو جہد کا آغاز آج سے تقریباً تین دہائی پہلے شروع کیا تھا۔ ان تین دہائیوں میں انہوں نے بلوچ قومی تحریک اور مادر وطن کےلئے نمایاں اور قابل قدر خدمات سرانجام دیئے، ہزاروں مصائب اور مشکلات کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا۔ لیکن اس کے عزم و استقلال میں کبھی کوئی لرزش نہیں آیا اور مستقل مزاجی کے ساتھ بلوچ قومی آزادی کے جنگ کو بڑھاتے رہے۔ انہوں نے سینکڑوں بلوچ نوجوانوں کی بطور ایک جنگی کمانڈر اور فکری رہبر رہنمائی کرتے رہے۔ آج اُس کے مخلصانہ کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ بلوچ مسلح تنظیمیں آپس میں قریب آرہے ہیں، اور اتحاد و اتفاق اور اشتراک عمل پر راضی نظر آتے ہیں۔ اپنے قائدانہ صلاحیتوں، مخلصانہ و دلیرانہ کردار اور بے لوث خدمات کے بدولت بلوچ قومی تحریک میں وہ ایک ممتاز مقام پر فائض ہو گئے۔

آپ نے اپنے بہترین اور کامیاب جنگی حکمت عملیوں سے کئی بار دشمن کے ہوش اڑا دیئے تھے۔ اور وہ قابض دشمن کے بنیادوں کو ہلا دینے والا ایک زلزلہ تھا۔ اس کا اندازہ دشمن کے چیخ و پکار اور اُس کی شہادت کے بعد دشمن کی طرف سے جشن منانے اور رقص سے لگایا جاسکتا ہے ۔ آج بی ایل اے میں شہید مجید فدائین بریگیڈ کا قیام عمل میں لانا، فدائی حملے کےلئے سب سے پہلے اپنے بیٹےکاانتخاب کرنا، اور بلوچ قومی تحریک کو مایوس کن حالات سے نکال کر جنگ میں ایک دفعہ پھر سے شدت پیدا کرنا، سب اس عظیم ہستی کے کار محنتوں کا نتیجہ ہے۔ آج بلوچ قومی آزادی کے سوچ سے متفق ہزاروں بلوچوں کا آئیڈیل اور بلوچ جنگ سے وابستہ جانثاروں کا ہیرو ہیں۔ آزاد بلوچستان اور خوشحال بلوچ سماج کے قیام کےلئے جو خواب آپ نے دیکھیں تھے، وہ آزاد بلوچستان کی صورت میں ضرور پورا ہونگیں۔ بلوچ تاریخ میں جنرل اسلم بلوچ ہمیشہ ایک روشن باب کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔