عظمت و ہمت کا پیکر “اماں یاسمین بلوچ” – عبدالواجد بلوچ

437

عظمت و ہمت کا پیکر

“اماں یاسمین بلوچ”

تحریر: عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ماں کی عظمت پر کچھ لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ ماں شفقت، خلوص، بے لوث محبت اور قربانی کا دوسرا نام ہے۔ ماں دُنیا کا وہ پیارا لفظ ہے جس کو سوچتے ہی ایک محبت، ٹھنڈک، پیار اور سکون کا احساس ہوتا ہے۔ اس کا سایہ ہمارے لئے ٹھنڈی چھاوں کی مانند ہے۔ چلچلاتی دھوپ میں اس کا دستِ شفقت شجرِسایہ دار کی طرح سائبان بن کر اولاد کو سکون کا احساس دلاتا ہے۔ اس کی گرم گود سردی کااحساس نہیں ہونے دیتی۔ خود بے شک کانٹوں پر چلتی رہے. ماں کی بے پایاں محبت کو لفظوں میں نہیں پُرویا جا سکتا۔ خلوص و ایثار کے اس سمندر کی حدود کا اندازہ لگانا ممکن نہیں. ”ماں “وہ عظیم نام ہے، جس کے لئے دُنیا کی مختلف زبانوں اور عالمی تہذیبی ورثے اور زبان و ادب میں جو الفاظ تخلیق کئے گئے، وہ اس کے بلند مقام کا استعارہ اور ماں سے عقیدت و محبت کا حسین اظہار ہیں۔

اسی طرح عظیم ماؤں کی عظمت کا لاج رکھ کر بلوچ قوم کی ایک عظیم ماں اپنی زندگی کے درد ناک لمحات میں حوصلہ مند ہوکر اپنے سپوتوں کو نصیحت فرماتے ہوئے پیغام دیتی ہے کہ ’’آپس میں مت لڑنا، محنت سے کام کرنا، صبر سے کام لینا اور اپنے وطن کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا، استاد جو عظیم رھبر تھا، ان کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر آگے بڑھنا. بہادر مثالی Symbol of Hope اماں یاسمین کی یہ نصیحت مجھے قرن اولیٰ کی ان مقدس ماؤں کی بھی یاد دلا رہی ہے جو جنگ میں شہید ہونے والے اپنے جگر کے ٹکڑوں کی شہادت یا اپنے عظیم خاوندوں کی شہادت کی خبر سن کر سجدہ شکر میں گر جاتی تھیں اور صرف یہ جاننے کے لئے بے قرار رہتی تھیں کہ کیا ان کے جگر گوشے بہادری سے لڑے؟ میدان میں پیٹھ تو نہیں دکھائی! بلکہ میرے خیال میں تو اس نصیحت کے اصل محتاج تو ہمارے قومی لیڈر ہیں! انہیں بھی چاہیئے کہ اس نازک گھڑی میں اپنے تمام اختلافات بھول کر صبر سے کام لیتے ہوئے محنت کریں اور وطن کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے کمر بستہ ہو جائیں۔ تاریخ چیخ چیخ کر اس لمحے کو پکارے گی، جس وقت اماں یاسمین نے اپنے لخت جگر عظیم فرزند فدائی ریحان جان کے کندھوں پر آزاد بلوچستان کا بیرک رکھ کر انہیں بہ خوشی آزاد وطن کی خاطر قربان گاہ کی طرف روانہ کیا جو کہ ایک مثال ہے بلوچ تاریخ کے اندر.

سنگت برزکوہی کہتے ہیں بلوچوں کی وہ خوش قسمت نسل ہم ہیں، جو کتابوں میں پڑھنے یا تاریخی داستانوں میں سننے کے بجائے تاریخ کو خود ہی اپنی ہی آنکھوں اور کانوں سے دیکھتے اور سنتے آرہے ہیں۔ قوموں کو ایسے تاریخ ساز دور اور مواقع بہت کم ہی نصیب ہوتے ہیں اور یہ نصیب اور موقع بحثیت موجودہ نسل ہمیں نصیب ہوا ہے، بلوچ فرزندان کے لئے اماں یاسمین بلوچ جیسے کردار اس پرآشوب دور میں حوصلہ ہمت کے نشان ہیں۔ جن کی نصیحتیں فرزندان وطن پر جنون و حوصلے کے سبب ہیں.

شہید جنرل استاد اسلم کے بے لوث کردار اور اماں یاسمین کی بہادری اور ان کے ساتھ کمٹمنٹ ہی تھی کہ جب شہید استاد نے ریحان جان کو جن کی پیدائش پر ہزاروں خواہشیں بُنی ہونگی، اماں یاسمین نے لیکن جب استاد نے انہیں بلوچ وطن کی آجوئی کے لئے فدائین کے ساتھ شامل کیا تو وہ ماں گھبرائی نہیں بلکہ عظمت و ہمت بہادری کا مظاہرہ کرکے اپنے لال کو اپنے ہاتھوں آزاد بلوچستان کے بیرک کے ساتھ ان کا ماتھا چوم کر انہیں روانہ کردیتی ہیں.انسانی تاریخ میں شاید ایسا انوکھا مثال ہو لیکن یہاں تو تاریخ خود ایک لمحہ دم بخود رہا ہوگا، جب ریحان جان کی قربانی کے بعد چھ ساتھیوں سمیت استاد جنرل اسلم بلوچ کی شہادت پر اس عظیم ماں کے قدم نہیں ڈگمگائے بلکہ وہ حوصلے کا نشان بن گئی اور دوسرے فرزندان وطن کی رہنمائی پر تیار نظر آئیں.

نپولین کا قول ہے کہ آپ مجھے عظیم مائیں دیں، میں آپ کو عظیم قوم دوں گا۔ آج تاریخ اس امر کا گواہ ہے کہ بلوچ قوم کو عظیم مائیں ملی ہیں اور بلوچ خود عظیم ہے کیونکہ حوصلوں کے پیکر اماں یاسمین جیسی مائیں اس دھرتی پر زندہ سلامت ہیں اس قوم کو دنیا کی کوئی طاقت زیر نہیں کرسکتی.

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔