جاتے جاتے تم نے آواز تو دی ہوگی۔ حیراف بلوچ

579

جاتے جاتے تم نے آواز تو دی ہوگی

حیراف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آه! جنرل، وه کونسا شہر، وه کونسا دیس اور وه کونسی جگہ ہے؟ جہاں نہ کوئی چهٹی، نہ پیغام اور نہ ہی ملاقات کا رسم موجود۔ کہاں چلے گئے تم جنرل کہاں چلے گئے؟

یہ حقیقت کیوں اتنی عجیب ہے کہ جنرل جسے تسلیم کرنے سے دل وُ دماغ قاصر ہے؟ کیوں اتنی بے رحم ہے یہ حقیقت اور کیونکر اسے بدلا نہیں جاسکتا؟

استاد آپ ہمیشہ ہمارے لئے، یعنی بلوچ قوم کیلئے لڑتے رہے تاکہ بلوچ قوم کی آنے والی نسلیں آزاد فضاء میں سانس لے سکیں اور ایک خوشحال زندگی گُذار سکیں، اس مقصد کے حصول کیلئے آپ نے اپنے گهر کے چراغ اما یاسمین کے جگر کے ٹکڑے ریحان جان کو بهی قربان کردیا اور صد آفرین ریحان جان پر کے اُس نے بهی بلوچستان کی آزادی کو اپنی جان سے بڑھکر پایا۔

اُستاد آپ بیچ سفر میں کچھ کہے بغیر ہم سے کیسے بچھڑ سکتے ہو؟ میں نہیں مانتا، میرا دل نہیں مانتا، اُستاد آپنے جاتے جاتے ہمیں آواز تو دی ہوگی۔
آواز جو کانوں تک نہیں پہنچی، پر دل میں بسی ہوئی ہے
آواز جسکا تعلق کانوں میں پڑنے سے نہیں بلکہ سمجهنے سے، محسوس کرنے سے ہے
آواز جومیٹهی سی ہوگی، آواز جو خوش آئیندگی کی ہوئی ہوگی
آواز جو گُونج رہی ہے، انقلاب کی آواز، آشوب کی آواز، نظم وُضبط اور اتحاد کی آواز
آواز جو آپکی وصیت ہوئی ہوگی، نصیحت، صلاح و مشورے کا ہوا ہوگا
آواز جس میں درس ہوا ہوگا، اجتماعیت اور قومی مفادات ہوئے ہونگے، جہد مسلسل کا پیام ہوا ہوگا
آواز جس میں تاریکیوں سے نکلنے کا عزم ہوا ہوگا. جو روشنی کا پیکر ہوا ہوگا، جسکی روشنی لاکهوں چاند اور سورج سے بڑ کر ہوئی ہوگی. جو سردیوں کی دهوپ اور گرمیوں کی چهاؤں ہوئی ہوگی اور سب سے بڑھ کر نہ ٹوٹنے والا حوصلہ ہوا ہوگا.

جنرل دُشمن سمجھ رہا ہے کہ اُس نے اسلم بلوچ کو شہید کردیا ہے، وه کمبخت نہیں جانتا کہ جنرل زنده ہے، بهلا سوچ کو بهی کوئی مار سکتا ہے. یہ تشدد، مار پیٹ، مارنا، پهینکنا اگر ایسے ہتهکنڈوں سے سوچ کاونٹر ہوتا تو آج دُنیا کی تاریخ اُلٹی لکهی گئی ہوتی. کل کے اور آج کے محکوم ہمیشہ کے محکوم رہتے، مگر ایسا نہیں ہے۔

جنرل مجهے یاد ہیں آپ کہا کرتے تهے کہ جنگ ہم سے زیاده دُشمن کے ہاتھ میں ہے، وه زیاده ظلم کریگا ہم اور زیاد اُبهرینگے، جنرل یہی آواز بهی شاید آپ نے جاتے جاتے دی ہوگی۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔