اکیس سالہ بلوچ جدوجہد – سلمان حمل

289

اکیس سالہ بلوچ جدوجہد

سلمان حمل

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں پاکستان کے خلاف بغاوتوں کی ایک طویل داستان ہےـ 1948 سے لیکر آج تک ہزاروں کی تعداد میں بلوچوں نے قربانیاں دی ہیں ـ آبادیوں کے آبادیاں مسمار ہوئے ہیں، خاندانوں کے خاندان عقوبت خانوں میں دھکیلے گئے ہیں ـ کبھی کبھی جب خاموشی میں سوچتا ہوں کہ کیا صرف ان قربانیوں میں ہماری بقا اور آزادی مضمر ہے یا نہیں؟ تو پھر اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ غلامی کیخلاف قربانیوں کی تاریخ رقم کرنا کافی نہیں بلکہ اس کیلئے واضح او جامع نظریات، حکمت عملی اتحاد و اتفاق، بااعتماد و باصلاحیت قیادت کے ساتھ ساتھ جمہوری و تربیتی اداروں کی ضرورت ہوتی ہےـ عام طور پر تو ایک قوم کی غلامی کا ذمہ دار جارحیت و توسیع پسندوں کو قرار دیا جاتا ہے، مگر قوم کے اپنے اندرونی و بیرونی کوتاہیوں و کمزوریوں کو نظر انداز کیا جاتا ہےـ اگر کوئی قوم اپنے کوتاہیوں، کمزوریوں کا ذمہ دار کسی اور کو ٹہرائے تو وہ قوم ہر گز اپنی اصلاح نہیں کرسکتا ـ

اگر اسی زاویئے سے ہم الجزائر کی آزادی کی تحریک اور بلوچ کی تحریک پر نظر دہرائیں تو ہمیں بہت سے ابہام اور خوش فہمیوں کے جواب ملیں گےـ جب الجزائر پر فرانسیسی فوج اور سول حکومت نے پنجے گاڑھے تو الجزائری قوم کے خلاف انتہائی منفی پروپگنڈے کیئے گئے، حتیٰ کہ یہ بھی کہہ دیا کہ الجزائر جیسے ممالک آزاد ہوئے تو وہ یورپ کیلئے خطرہ ہونگےـ اور اس وقت فرانس یورپ کے طاقتورترین عسکری و سیاسی قوت تھی ـ مگر الجزائری عوام نے احمد بن بیلا کی قیادت میں نیشنل لبریشن فرنٹ کی توسط سے دنیا بھر میں کامیاب سفارتکاری کی اور اسی وجہ سے نیشنل لبریشن فرنٹ بیسوی صدی کے ماڈل پارٹی کے طور پر جانا جاتا ہےـ اسکا اندازہ ہمیں نیشنل لبریشن فرنٹ کے احمد بن بیلا کی باصلاحیت ٹیم اور اداروں سے لگایا جاسکتا ہےـ احمد بن بیلا بہ یک وقت مشترکہ طور پر سیاسی و عسکری سطح پر قیادت کر رہے تھےـ احمد بن بیلا سیاسی اسٹیجوں پر تقاریر کے ساتھ ساتھ عسکری محاذ پر بھی پیش پیش تھے ـ انہوں دنیا بھر میں الجزائری تعلیم یافتہ مردوں و عورت جھدکاروں کی ٹیم پھیلائےـ ان جھدکاروں نے مخلتلف ممالک کی پریس سے روابط استوار کیئے اور دنیا کو یہ باور کرایا کہ الجزائر میں ہونے والی اس خونی جنگ کا ذمہ دار الجزائری قوم نہیں بلکہ ان کے وسائل اور زمین پر براجمان فرانسیسی فوج ہے، جو الجزائری قوم سے ان کے پیدائشی، انسانی اور فطری حق آزادی کو چھین رہا ہےـ جب کہ نیشنل لبریشن فرنٹ کو مصر کی بھر پور اور غیر مشروط حمایت حاصل تھی ـ کیونکہ بن بیلا نے مصری صدر ناصر کو یہ باور کرایا تھا کہ الجزائری ہر مرد و عورت فطری طور پر گوریلہ ہے ـ بن بیلا ایک عرب قومپرست ہونے کے ناطے مراکش سے تھا اور الجزائر کی آزادی تحریک میں شامل ہوا تھاـ

اگر ہم غیر جانبداری سے اکیس سالہ بلوچ قومی تحریکی پر نظر ڈالیں تو ہمیں قربانیوں کا ایک نا ختم ہونے والی تاریخ دستیاب ہوگاـ مگر ایک مضبوط موثر سیاسی و عسکری ادراہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گاـ اس کے بھی کئی وجوہات ہیں ـ ایک تو ہماری سیاست وراثت میں تبدیل ہوچکی ہے، دوئم ایک دوسرے سے ایک قدم آگے نکلنے کیلئے کوشاں رہے ہیں ـ یہ تو ماضی کے وہ تلخ حقائق ہیں جو چھپنے سے بھی نہیں چھپیں گےـ کیونکہ ہمیں آج اپنے کل کیلئے سوچنا ہوگا کہ آیا ہم نے ان اکیس سالوں میں کس ملک کی بھر پور نہ سہی مگر غیر مشروط حمایت حاصل کی ہے؟

کیا ہم نے یورپی ممالک سمیت دیگر ممالک میں اپنی اس جنگ کی نمائندگی کی ہے؟ کیا ہم نے دنیا کے پریس سے روابط استوار رکھے ہیں کہ وہ ایک آدھ منٹ بلوچ کی خون آمیز سرزمین کی کوریج کرسکیں ـ اگر نہیں تو کیوں نہیں اگر کیئے ہیں تو دکھتے کیوں نہیں؟ عمل تو خود بولتا ہے کسی کو عمل کی ترجمانی نہیں کرنی پڑتی ـ مگر یہاں عمل غائب ہے اور ترجمانی کرنے والے بہت ہیں ـ اور حقیقتاً ہم نے نہیں کیئے ہیں تو اب کریں، آج کریں، ہمیں آزادی صرف سروں کی قربانیوں سے نہیں ملے گاـ ہمیں آزادی ایک مضبوط اور موثر سیاسی و عسکری اداروں سے ملے گا، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہمارے ادارے مضبوط ہوئے تو بغیر قربانی کے آزادی ملے گاـ آزادی کیلئے قربانی کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط و موثر ادارے کا ہونا بھی لازمی ہےـ جو میدان میں دشمن کے خلاف منظم سے منظم تر حملے کرے، دشمن کے تنصیبات کو نقصان پہنچائےـ اور عالمی و علاقائی سطح پر بلوچ جنگ کی نمائندگی کرے اور دنیا کو یہ باور کرائے کہ یہ جنگ بنیادی طور پر پاکستان نے اپنی توسیع پسندانہ عزائم سے شروع کی ہے اور اسے ختم کرنے کیلئے بلوچ اپنے سروں کی قربانیاں دے رہا ہےـ کیونکہ امن کیلئے جنگ لازمی ہے ـ تو ہم بجائے وقت گذاری کے میدان میں دشمن کیخلاف منظم انداز میں دشمن کیخلاف حملے کریں اور بیرون ملک اقوام کو بلوچستان کی جنگ کے بابت ہر وقت ہرجگہ معلومات فراہم کریں ـ یہ تمام کام ایک مضبوط ادارہ، باہمت و بااعتماد رہبر کے ذریعے ہوسکتے ہیں ـ نہیں تو بلوچستان کو قبرستان بننے سے کوئی روک نہیں سکتا ـ

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔