ہمت و عظمت کا پیکر اماں یاسمین- عبدالواجد بلوچ

380

ہمت و عظمت کا پیکر اماں یاسمین

تحریر:عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ابھی سے پاؤں کے چھالے نہ دیکھو
ابھی یارو سفر کی ابتدا ہے

بلوچ عورتوں کی جرأت اور بہادری کی گواہی تاریخ کے پنوں میں سنہرے الفاظ میں درج ہیں۔ بلوچ عورتیں جنہوں نے تلوار اٹھایا ہے اور جنگیں فتح کی ہیں یا پھر شہادت نوش کی ہے، وہ اس قومی جنگ آزادی میں مردوں کے مقابلے میں برابرکاشریک ہیں۔ جلسے اور احتجاجی مظاہروں میں بھی زیادہ تر عورتیں دکھائی دیتی ہیں۔

بلوچستان میں جو ظالمانہ ریاستی بربریت جاری ہیں، ان میں زیادہ ترعورتیں اور بچے تشدد کا شکار ہوئے ہیں۔ ستر سالہ دورانیہ و تادم تحریر بلوچ نے جتنی بھی ریاستی جبر و بربریت سہی ہے، کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ بلوچ شیرزالوں نے انتہائی ہمت و بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا ہے اور ہمیشہ اپنے بھائیوں کے ساتھ قدم بہ قدم رہی ہیں۔ اس جنگ میں بلوچ عورتیں جب اپنے بھائی، بچوں،شوہروں کو شہید ہوتے دیکھتے ہیں تو انتہائی برداشت، صبرو تحمل اوربہادری کا مظاہرہ کرکے اپنے پیاروں کو گلزمین کے سپرد کرتی ہیں جو بڑی ہمت اور بہادری کاجیتا جاگتا مثال ہے، لیکن ان شیرزالوں میں ایک بہت ہی عظیم جرأت مند اور بہادر شیرزال نے بھی اپنا نام تاریخ میں قید کیا، جو شاید بلوچ ماؤں کے لئے مثال بن چکی ہے، اس عورت کے بارے میں بیان کرنا نا ممکن شاید نہ ہو لیکن اسکی عظمت کے حوالے سے میرے پاس جو الفاظ ہیں وہ ناکافی ہیں۔

نپولین نے کہا تھا کہ تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمھیں اچھا قوم دوں گا، تاریخ ایسے بہادر ماؤں کا کیا ذکر کرے گا جنہوں نے وطن پر اپنے بچے نچھاور کر دیئے اس کے بعد اماں یاسمین نے اپنے بہادر خاوند کی شہادت پر جو حوصلہ مند پیغام دیا جس بلوچ قومی تحریک کو ایک نیا حوصلہ ملا ایک نئی جہت ملی ایک نیا راستہ ملا حوصلہ و جرات کا پیکر اس ماں کا داستان رہتی دنیا تک اپنا ڈنکا بجاتا رہے گا.

یقیناً جب ہم اپنی نگاہیں زرخیز زمینِ بلوچستان پر ڈالتے ہیں تو تاریخ چیخ چیخ کر ان شیرزالوں کی داستانیں ان کی لوریاں جس سے بہادر بچوں نے پروانِ پرورش پائی، اس دہلیز پر پہنچے جس سے قربانیوں کا عروج ممکن ہو. تاریخ دان جب بلوچ ماؤں پر رقم طراز ہوگا تو اس قلم کی سیاہی ہی ختم ہوگی، جس سے اُس عظیم ماں کی عظمت پر کچھ لکھا جائے گا۔ جی ہاں! وہ عظیم ماں “اماں یاسمین اسلم” ہیں جنہوں نے شہید ریحان جان جوانسالی میں عظیم دھرتی کے پرچم کو ان کے کندھے پر رکھ کر انہیں وطن پر قربان ہونے اور استحصالی قوتوں کی نیندیں حرام کرنے کے لئے قربان گاہ پر بہ خوشی بھیجا. جی ہاں یہ اس عظیم استاد کی تربیت تھیں، قربت تھا اور اس بہادر ماں نے اس تربیت کا لاج رکھ کر ایک قوم کی ماں کہلانے کا حق بخوبی نبھایا۔
.
آج میں فخرانہ انداز میں کہتا ہوں کہ ماں عظیم ماں اس عالم انسانیت پر تیرے کتنے احسا نات ہیں، میں کیسے تیرا کوئی دن مناؤں.یہ سارے دن یہ موسموں کی بو قلمونیاں یہ رنگینیاں یہ ہلچل سب تیری وجہ سے ہیں۔ ماں اگر تو نہیں تو کوئی دن دن نہیں۔ کوئی لمحہ لمحہ نہیں، کار خانہ قدرت چوپٹ ہے، بز م کون ومکان میں تیری خوبصورتیاں ہیں. کوئی ہو جو کوئی دن تیرے نام کر ے۔ میں پوری زندگی تیرے نام کرتا ہوں تم میرے لئے کھلی کائنات ہو۔

بلوچ زمین بلوچ قوم کو اس دورِ پرآشوب میں جہاں مائیں اپنے بچوں کی شہادت اپنے خاوند کی شہادت اور ان تمام بھائیوں کی شہادت پر آنسوں نہ بہائیں بلکہ حوصلوں کی ایک نا ختم ہونے والے سلسلے کا ابتداء کرتی ہوں، وہ مائیں عظیم ہونگے اور بلوچ قوم کو غلامی کی زنجیروں میں مزید کوئی نہیں جکڑ سکتا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔