کوئٹہ میں زلزلہ کیوں نہیں آیا؟ ۔ فراز بلوچ

230

کوئٹہ میں زلزلہ کیوں نہیں آیا؟

تحریر۔ فراز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کوئٹہ کی خون جما دینے والی سردی میں سیکریٹیریٹ جی-پی-او چوک پر بیٹھے احتجاج کرنے والے بلوچ خواتین بشمول بچے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے گذشتہ رات سے یخ بستہ سردی میں احتجاج کررہے تھے۔ شدید سردی کی وجہ سے انکا خون جم رہا تھا، مگر وہاں نا میڈیا والے پہنچے اور نا ہی کوئی قوم پرست سیاسی لیڈر، جو ہر دن پارلیمنٹ میں بلوچ روایتوں کی مثال دیکر اپنے سیاست کو مقبول بنانے کی چکر میں لوگوں سے داد وصولی کی دوڑ میں لگے ہوتے ہیں۔ احتجاج رات دیر تک جاری رہی مگر جناب وزیر اعلیٰ جام کمال صاحب نا ہی بلوچ روایت کے سامنے اپنے ہتھیار ڈالنے کو تیار تھے اور نا ہی اُسے ان بچوں کا تھوڑا سا خیال آیا، جو خون جم جانے کی وجہ سے آسمان کی طرف سرخ زدہ انکھیں اٹھا کر سوال کررہے تھے کہ اب اللہ ہی ہماری آہیں سنے۔

وہ معصوم مائیں اور بچے بہت افسردہ اور پریشاں بیٹھے کسی معجزے کا انتظار کررہے تھے، مگر وہ تمام وزراء سی پیک جیسے بڑے پروجیکٹ پر بحث اور مباحثے میں مصروف تھے کہ انکو اچانک خبر ملی!

جناب کچھ جاہل بلوچ عورتیں اور بچیوں نے چوک پر ڈیرہ ڈال دیا ہے۔

انکو دیکھنے، جناب سردارِ اعلیٰ لسبیلہ نے قیدی وین سمیت کانسٹیبلوں کی ایک بڑی تعداد بھیج دی۔ انہوں نے اُنسہ بلوچ سمیت دھرنے پہ بیٹھے دودھ پینے والے بچوں اور انکی ماوں کو بھاگنے کو کہا، جسے جناب جام کمال صاحب براہ راست گیس ہیٹر کے سامنے بیٹھ کر دیکھتا رہا۔

جب فورسز نے ماما قدیر سمیت بلوچ خواتین کو اُٹھنے کو کہا اور دھمکیاں دیں کہ نہ اٹھنے پر وہ دوسرا فارمولا اٍستعمال کرسکتے ہیں۔ یعنی لاٹھی چارج، لاپتہ کرنا اور آنسو گیس کا۔ سب باتیں اور منظر کو شال کے غیور اور عزت دار باشندے سوشل میڈیا پر وقتاً فوقتاً دیکھتے رہے۔ وہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگ کوئٹہ میں بیٹھے ہوئے بھی کہہ رہے تھے، آج اکثریت لوگوں نے ثابت کردیا کہ انکا ضیمر مرچکاہے، وہ آج کے بعد بڑے شلور پہن کے ایسا کہنے سے قبل سوچیں گے کہ ” ما لہجیں گہارانی “.

مگر اُن سب وزراء، جی ہاں! ٹھیک سوچھا۔
بلوچستان میں بیٹھے بلوچ لیڈراں کی بات کررہا ہوں۔ جنہیں اگر بے ضیمر کہیں بھی انکے شان کے بر خلاف کم رہ جاتی۔ وہ اس بات پر اکھٹے ہوئے تھے کہ ایسا کیا کیا جائے جس سے لاٹھی نا ٹوٹے اور سانپ بھی نا مرے، مگر عوام اور سرکار دونوں کو خوش کرسکیں۔ المیہ اس مقام تک پہنچ چکا ہے کہ سیاست جمانے کیلئے کچھ لیڈر پارلیمنٹ میں بلوچ مسننگ پرسنز کا نام لے کر خود کو منوانے کیلئے بلوچ نوجوانوں کے توجے کا مرکز بننا چاہتے ہیں، تو ان میں سے کوئی سی پیک کے مد میں دیئے جانے والے اربوں پیسوں کو بلوچستان اور گوادر کے عوام کی ترقی کا نعرہ لگا کر خود حقیقی سیاست دان کہلانے کا ڈُ ھونگ رچاتا ہے، تو وہاں کچھ ایسے بھی بہادر لیڈر موجود ہیں جو تعلیم کو یورپی طرز کے بنانا چاہتے ہیں۔

مگر بلوچ مائیں اور بہنوں کی جو آہ اور فریاد آگ کی روشنی کے ساتھ پارلیمنٹ کےلمبی دیواروں سے ٹکراتی ہوئی انکے کانوں تک پہنچ گئی، تو سب بلوچ لیڈران بےحس ہوگئے۔

وہ لوگ جو اپنے بچوں کے آنکھوں کی آنسو پونچھنے کو چند قدم آگے بڑھ نہیں سکتے وہ کیا خاک ہمارے پیاروں کو ٹارچرسیلز سے نکال کر آزاد کرینگے۔

منفی سات سینٹی گریڈ کو باہر روڈ کے کنارے دھرنے پر بیٹھے بلوچ خواتین کا صرف ایک ہی مطالبہ تھا کہ جنابِ اعلیٰ جام کمال صاحب ان سے مل کر لاپتہ افراد کے حوالے سے اپنے حکومت کی طرف سے کی گئی پيشرفت کا بتادیں، مگر یہاں کچھ کرنے سے پہلے حکامِ اعلیٰ سے اُرڈر لیا جاتاہے۔ جب تک کٹھ پتلی حکومت کو احکام جاری نہ ہوں، تو اُن میں اتنی جُرت ہی نہیں کہ وہ بلوچ ماوں کے سر پر جاکر چادر اُوڑھ لیں۔ پھر ہم کس لیئے اور کب تک انکی جی حضوری کرتے رہینگے۔

کچھ لکڑی جلا کر اس کے گرد بیٹھے معصوم بچے اور مائیں اس رات کوئٹہ کے بلوچ اور پشتون آبادی سے سوال کررہے تھے۔
“کوئی ہے جو ہمارے آواز کا حصہ بنیں اور ہمیں اس یخ بستہ سردی میں کمبل لاکر دے کیونکہ ہم دور افتادہ علاقوں سے آئے ہیں”۔ مگر کسی کی کان تک جوں تک نہ رِینگی۔

احتجاج شروع ہونے تک تعداد میں جتنے بھی تھے آدھی رات تک ان میں اضافہ نہیں ہوا۔ سیما بلوچ نے مگر ہمت نہیں ہارا، وہ ڈٹے رہے اور اپنے ٹویٹر پر ٹویٹ لکھ ڈالی۔

“آج لگتا ہے ڈر غائب ہو گئی ہے۔ جس طرح کا بھی برتاؤ پولیس کرے ہم اٹھنے والے نہیں اگر گرفتار کرلینگے تو مجھے شبیر کے پاس لے چلیں۔ کیونکہ مجھے پتہ ہے وہ ہر روز اسی کیفیت سے گذر رہا ہوگا”.

ڈر اس لیئے بلوچ بہنوں اور ماوں کا ختم ہوچکا ہے کیونکہ انکو اب پتہ چل گیا ہے کہ جُہدِ مُسلسل میں کوئی ساتھ نہیں رہ سکتا۔ کوئی ڈر اور خوف کے مارے گھروں میں محصور ہوگا تو کوئی دور بھاگ جائیگا اور کچھ ایسے بھی لوگ اُس وقت نظر سے دھُول ہونگے جن کے پیارے بازیاب ہوکے گھر پہنچ گئے ہیں۔ مگر اس بات کا میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں ماما قدیر اور نصراللہ بلوچ کبھی نہین تھکینگے اور نہ ہی کسی کے لاپتہ کرنے کے بعد گھر میں بیٹھ کے پھر تمہیں کبھی تو کبھی وہ کام کرنے کو کہنیگے۔ وہ اپنی آخری سانس تک بلوچ مسننگ پرسنز لواحقین کے ساتھ ہیں۔

بانک سیما بلوچ کے ٹویٹ کو دیکھ کر مجھے بلوچ بیٹی بانڑی کی یاد آگئی، جس نے چاکر خان کے ساتھ حصولِ دہلی تخت تک جنگ لڑا اور اُس وقت تک بہادری سے لڑا جب چاکر خان کا سارا فوج پسپا ہوچکا تھا۔ رات یخ بستہ سردی میں روڈ پر باہر بیٹھے سیما بلوچ، ننھی ماہ رنگ اور آنسہ بلوچ نے ثابت کردیا کہ وہ جو کل پریس کلب اور باقی احتجاجوں میں انکے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے تھے، آج چند بلوچ اسٹوڈنٹس کے اغواء ہونے کے خوف میں قریب تک گذارتے نہیں۔ انہیں کوئی فکر نہیں پڑتا۔

اب اِن بہادر بچیوں کو کسی بھی بھائی کی ضرورت نہیں رہا۔ کیونکہ وہ صرف سوشل میڈیا پر پوسٹ کرکے اپنے بلوچ ہونے کا سرٹیفکیٹ خود ہی اپنے نام کرلیتے ہیں اور پھر چَین کی نیند سو جاتے ہیں۔

کے۔بی فراق نے سیکریٹیریٹ چوک پرچند لکڑیوں پر مشتمل لگے آگ اور اسکے گرد بیٹھے بلوچ ماووں اور بچوں کے تصویر پر لکھ کر کیا خوب کہا کہ
“اصل میں یہ زندگی کی آگ ہے۔ جو مرکزہ کی صورت روشن ہے اور اسی میں اپنے گرد موجود یخ زدہ ایوانِ اقتدار کو اپنے پیاروںکے محبتوں کی گرمی کا احساس کراتے رہنا اس عہد کا ایک برتر اعلامیہ ہے۔ سو لاپتہ پیاروں کے ارتباط میں رہیئے اور اسی طرح جذبوں کی آگ روشن کرتے رہیں۔ کیونکہ ہم ایک ایسے زمانے میں جی رہے ہیں ۔جہاں کی حکومتوں کا محور ایک غیر انسانی بنیاد پر استوارکی گئی۔ جس پر لکھنا بولنا شرط ہے۔ تاکہ ہم اپنی اصل کو زندہ رکھیں۔ اور اس روشن آگ کے گرد بیٹھے بلوچ مائیں و بہنیں اور بیٹیوں کی آہیں ان ظلمت سرشت کو بھسم کر جائے”.

کانپتے ہوئے بچوں کی انتظار اب تک ختم نہیں ہوا ہے مگر وہ کل رات یہ کہہ کر خود کو تسلی دیتے رہے کہ کاش آج کوئٹہ میں زلزلے کے جھٹکے آتےاور وہ سب آدھے گھنٹے تک باہر کھڑے ہوتے تو انکو احساس ہوتا کہ منفی چھ سنٹی گریڈ میں انسان کا کیا حال ہوتاہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔