چاغی : خشک سالی کے خاتمے کے لئے حکومت کی جانب سے ایک کلو چولے وچاول تقسیم

633

خشک سالی کے حوالے سے ریڈ زون قرار دیئے جانے والے اضلاع میں غیر تسلی بخش حکومتی اقدامات۔

دی بلوچستان پوسٹ نمائندہ دالبندین کے مطابق بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح ضلع چاغی کے تمام یونین کونسلز دالبندین صدر  یوسی چلغازی ،  زیارت بلانوش،  یک مچھ،  آمری ،  نوکنڈی،  تفتان ، پدگ ، چاغی سمیت دیگر علاقے خشک سالی کی سنگین صورتحال سے دوچار ہیں۔

نمائندہ ٹی بی پی کے مطابق چاغی سمیت رخشان ڈویژن کو خشک سالی کے حوالے سے ریڈ زون میں شامل کیا گیا ہے جبکہ پی ڈی ایم اے نے چاغی کو بھی خشک سالی سے متاثرہ علاقہ قرار دیا ہے ،خشک سالی نے پورے ضلع چاغی کو لپیٹ میں لے رکھا ہے  اور علاقے میں پانی کا لیول بُری طرح گرچکا ہے کاریزات خُشک ہوچکے ہیں۔

تحصیل دالبندین کے علاقے یونین کونسل آمری گھٹ میروئی میرخان، ہوکی سمیت کئی علاقوں میں پانی کے ذخائر ختم ہوچکے ہیں اور یہاں کے لوگ شہری علاقوں اور افغانستان کی طرف ہجرت کررہے ہیں، جبکہ کئی مالداروں کی مال مویشی مررہے ہیں جس سے انہیں لاکھوں روپے کے نقصانات کا سامنا ہے۔ چاغی کی ستر فیصد آبادی دیہی علاقوں میں آباد ہے اور ان کے ذرائع آمدن یہی مال مویشی ہیں۔

اسی طرح دیہی یونین کونسلز سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ دالبندین تفتان نوکنڈی چاگئے کا رُخ کررہے ہیں مگر شہروں میں بھی ان کے مشکلات زیادہ ہیں جہاں انہیں رہائش اور روزگار کے ذرائع تلاش کرنے میں رکاوٹوں اور تکالیف  کا سامنا ہے۔

حالیہ خشک سالی سے چاغی میں انسان اور جانور دونوں بُری طرح متاثر ہیں، جبکہ معصوم بچے سنگین غذائی قلت کا شکار ہیں اور دیہی علاقوں میں سانس، جلدی اور آنکھوں کی بیماریوں اور خاص کر شب کوری کے بیماری کے بہت زیادہ اثرات پیدا ہوچکے ہیں اور  جانور جن میں  بھیڑ، بکریاں، اونٹ، مرغیاں، پالتو پرندوں کی اموات زیادہ ہورہی ہیں۔

نمائندہ دی بلوچستان پوسٹ کے مطابق حالیہ خشک سالی سے چاغی میں وائلڈ لائف کو سنگین صورتحال کا سامنا ہے، چاغی میں سیندک اور کچاو وائلڈ لائف کے محفوظ مقامات ہیں، جہاں کے پہاڑی علاقائی سلسلوں  میں شکار قدرے ناممکن ہے۔ وہاں کے پہاڑوں میں جابجا ہرن، چکور، بٹیر، بھیڑیے، لومڑیاں ، جنگلی خرگوش  اور دیگر جنگلی چرند و پرند خشک سالی اور پانی کی کمیابی کہ وجہ سے انتہائی کمزور ہوچکے ہیں اور جابجا ہرن اور پہاڑی پرندے مرے پڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔

دوسری جانب چاغی میں بدترین صورتحال سے نمٹنے کےلئے  وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے کوئی بھی خاص اقدام اٹھاتے ہوئے نظر نہیں آرہا ہے  البتہ پی ڈی ایم اے نے چند کمبل اور گوداموں میں پڑے  ناقص چاول و چھولے بھیج کر  خود کو بری الزمہ کردیا ہے اور ناقص خوارک کی تقسیم اور کھانے سے پورے ضلع میں پیٹ اور اسہال کی بیماریوں کی شہری ہسپتالوں میں شکایت عام ہوچکی ہے۔ جس کی وجہ زائد المعیاد غیر معیاری خوراک کی تقسیم اور ان کے کھانے کی وجہ بتائی جارہی ہے۔

چاغی کے عوامی حلقوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کو چاہیئے کہ سنجیدگی سے خشک سالی کے معاملات پر نوٹس لے اور علاقے میں خشک سالی سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے اور علاقے میں لوگوں و جانوروں کے علاج کے لیے ایمرجنسی بنیادوں پر اقدامات کرے اور ساتھ ہی  لوگوں کو محفوظ جگہ اور جانوروں کے لیئے چارہ فراہم کی جائے جبکہ کاریزات کی صفائی اور چاغی میں ڈیموں کی تعمیر کے اعلانات کرے۔

نمائندہ ٹی بی پی کے مطابق  بلوچستان اور پاکستان میں غیر سرکاری تنظیموں ورلڈ فوڈ پروگرام، یو این ایچ سی آر، اسلامک ریلیف، بی آر ایس پی سمیت دیگر اداروں نے اس سنگین ایشو پر آنکھیں موندھی ہوئی ہیں اور اگر اسی طرح غیر سنجیدگی کی  روش رہی تو چاغی میں صورتحال بدترین شکل اختیار کرسکتا ہے۔

یاد رہے کہ چاغی کو  سونےچاندی کی سرزمین کہا جاتا ہے جہاں سیندک اور ریکوڈک کے مقام پر اربوں ڈالر کے ذخائر موجود ہیں اور سیندک سے گذشتہ کئی عرصے سے چینی کمپنی بڑی تیزی سے وسائل کو نکال کر لے جارہا ہے ۔