ٹرمپ اندرونی سیاست سے باز رہے اور ہماری قوم کا پیچھا چھوڑ دیں- فرانس

143

فرانس کی حکومت نے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پیرس کی سیاست میں مداخلت سے دور رہنے کا مشورہ دے دیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز ٹوئٹ میں فرانس کے اندر جاری یلو وسٹ کے احجاجی مظاہرے سے متعلق متنازع بیان دیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ پیرس معاہدہ رو بہ عمل ہوتا نظر نہیں آرہا، فرانس کے طول و عرض میں احتجاج اور فسادات ہو رہے ہیں۔

ٹرمپ نے مزید کہا تھا کہ ماحولیات کے تحفظ کے لیے تیسری دنیا پر خرچ کی جانے والی رقم فرانسیسی عوام ادا نہیں کرنا چاہتے اور مظاہرین نعرے لگا رہے ہیں کہ ہمیں ٹرمپ چاہیے فرانس کے لیے محبت۔

بعدازاں متعدد عالمی میڈیا نے تصدیق کی کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جھوٹ بولا کہ فرانس میں مظاہرین ان کے نام کے نعرے لگا رہے تھے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع ٹوئٹ کے نتیجے میں فرانسیسی وزیر خارجہ جین ایس لی نے مقامی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم امریکی سیاست میں مداخلت نہیں کرتے اور کچھ اسی طرح کا رویہ اپنے لیے چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مجھ سمیت فرانسیسی صدر بھی ڈونلڈ ٹرمپ سے چاہتے ہیں کہ ہماری قوم کا پیچھا چھوڑ دیں۔

فرانسیسی وزیر خارجہ نے طنزیہ اور سوالیہ انداز میں کہا کہ پیرس میں بہت افسوس ناک دن اور رات ہے، شاید انتہائی مہنگے اور بکواس پیرس معاہدے کو ختم کرکے ٹیکس میں کمی لا کر رقم عوام کو واپس کردی جائے؟۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے نام سے متعلق بیان کے حق میں جس ویڈیو کا تذکرہ کیا وہ دراصل گزشتہ برس لندن کے ایک احجاج کی تھی۔

خیال رہے کہ فرانس میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ملک بھر میں یلو ویسٹ موومنٹ کی جانب سے احتجاج جاری ہے۔

فرانس میں ایک ماہ قبل سوشل میڈیا سے شہرت حاصل کرنے والی یلو ویسٹ نامی تحریک نے قلیل عرصے میں ملک بھر میں بڑے پیمانے پر اپنے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے جن کی کال پر مظاہرین نے ملک کی اہم شاہراہوں اور سڑکوں کو بند کردیا۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ برسوں سے پیٹرولیم مصنوعات میں عائد کیے جانے والے مختلف ٹیکسوں کی چکی میں پس رہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے ہونے والے ایک سروے میں اس تحریک کے حق میں 73 فیصد فرانسیسیوں نے ووٹ دیا تھا۔

صدر ایمانوئیل میکرن کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ متوسط اور نچلے طبقے کو نظر انداز کررہے ہیں اور ٹیکسوں کے ذریعے کمپنیوں اور بڑے منافع خوروں کی مدد کررہے ہیں۔