وقت کا تقاضہ اور تخصیصی شعور – برزکوہی

482

وقت کا تقاضہ اور تخصیصی شعور

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

70 کے دہائی کے بعد بلوچ مزاحمت کی سرد خانگی اور خاموشی خاص کر 80 اور 90 کی دہائیوں میں ڈاکٹر حئی، ڈاکٹر مالک، ڈاکٹر یٰسین، کہور خان، رازق بگٹی، حبیب جالب، مولابخش دشتی، اکرم دشتی وغیرہ وغیرہ کے ساتھ ساتھ ان کی بڑی تعداد میں پیروکار و فرمانبردار کارکن اور چیلے اور بلوچ سماج میں دیگر قوم پرستی و سوشلزم کے نام نہاد دانشور، لکھاری، ادیب و شعرا پہلے خود بلوچ قومی آزادی کے دعویدار، علمبردار اور مزاحمتی عمل اور مزاحمتی سوچ کے علمبردار اور پجاری تھے، مگر پھر تھکاوٹ، راہ فراریت، خوف، مایوسی، پسپائی اور ہمت ہار جانے کی صورت میں یہ شکست خوردہ عناصر نام نہاد قوم پرستی و ترقی پسندی کے لبادے میں پھر بھی رہ کر بلوچ عوام میں خصوصاً بلوچ نوجوانوں میں مزاحمتی سوچ اور مزاحتمی عمل کے خلاف زہر آلود منفی پروپنگنڈہ شروع کرکے نوجوانوں کو مایوسی اور ناامیدی کی طرف دھکیل رہے تھے۔

ان میں کچھ شروع سے پاکستانی خفیہ اداروں کی پے رول پر سب کچھ کر رہے تھے اور باقی بعد میں خفیہ اداروں کی آشیرباد حاصل کرکے مزاحمتی عمل اور مزاحمتی سوچ کے خلاف سرگرعمل تھے اور آج ان تمام شکست خوردہ عناصر کے قول و فعل اور کردار میں کوئی دورائے نہیں، وہ بالکل واضح ہیں، صاف آئینے کی طرح اس وقت سے لیکر آج تک جو بچے کچھے ہیں، ان کا مجلسوں، محفلوں، ذہنی عیاشی نما سیاسی سرکلوں میں صبح و شام یہ باتیں، یہ منفی پروپگنڈے تھے اور ہیں کہ کچھ نہیں ہوگا، کچھ نہیں ہے، سب کچھ ختم، دنیا بلوچستان کی آزادی نہیں چاہتا ہے، امریکہ تو بالکل نہیں چاہتا، پاکستان کو کوئی توڑنا نہیں چاہتا، مسلح جہدوجہد یا قوم پرستی و قومی مزاحمت کا وقت ختم ہوچکا ہے، مزاحمت، جنگ، مسلح جہدوجہد مہم جوئی و جذباتی پن رومانویت ہے اور قومی بربادی و قومی تباہی خاص کر بلوچ نوجوانوں کو استعمال اور ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔

ایسے لغو قسم کے باتیں زور و شور سے جاری و ساری تھے، جو ہنوز جاری ہیں، فرق صرف یہ کہ آج ان سرکلوں میں یہ من گھڑت تاویلیں مل رہے ہیں، جہاں ایک طرف مسلح جدوجہد اور قومی آزادی سے خود منسلک چند نوجوانوں کو پہاڑوں پر مورچہ زن دشمن کے خلاف برسرپیکار ہونے، مسلح کاروائیوں کی ہدایت و تلقین، سبز باغ دکھانا اور شہیدوں کی برسی پر عہدوپیمان، صفت و ثناء دوسری طرف خود خوشگوار نرم و گرم ماحول میں کوسوں دور آرام و سکون سے بیٹھ کر بدظنی و مایوسی پھیلانا ماضی کی شکست خوردہ عناصر کی طرح کچھ نہیں ہے اور کچھ نہیں ہورہا ہے بلوچ نوجوان ضائع اور استعمال ہورہے ہیں، کیا دنیا میں اس سے بڑا منافقت اور موقع پرستی کا اور مثال ملتا ہے؟ تو پھر کس طرح اور کیسے موقع پرستی کے زمرے میں یہ منفی عمل شمار نہیں ہوتا ہے؟ ایک طرف خود جہد آزادی اور مسلح جدوجہد سے منسلک ہوکر بے عمل شکل میں دوسری طرف مایوسی و ناامیدی پھیلانا، کیا موقع پرستی نہیں ہوسکتا ہے؟

اسی بنیاد پر انقلابی لیڈر فیڈل کاسترو کہتا ہے، انقلاب تب کامیاب ہوگا جب غداروں، چوروں اور موقع پرستوں کو اپنے صفوں سے باہر نکالا جائے۔ یعنی کاسترو کی نقطہ نظر میں موقع پرستی خود غداری کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔

اسی طرح موقع پرستوں کے حوالے سے چیرمین ماوزے تنگ کہتا ہے کہ 1927 میں چین کے پرولتاریہ نے بڑے بورژوا طبقے کے ہاتھوں جو شکست کھائی تھی، اس کی بنیادی وجہ وہ موقع پرستی تھی جو ان دنوں خود پرولتاریہ کے اندر (چینی کیمونسٹ پارٹی کے اندر) موجود تھی۔ جب ہم نے اس موقع پرستی کا قلع قمع کردیا تو چینی انقلاب پھر سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا۔

حقیقت پسندی اور مقدس علم و فن، تنقید برائے تعمیر سے نابلد ہوکر یا بدنیتی، کم علمی، لاشعوری اور شکست خوردگی کو حقیقت پسندی اور مقدس تنقید کے پوشاک میں اوڑھ کر شہداء کے مقدس لہو، مخلص، ایماندار، بے غرض اور بہادر بلوچ فرزندوں کی محنت و مشقت سے چلنے والی تحریک یا قومی آزادی کی جنگ کے بارے میں ایسے لغو اور بیہودہ قسم کے آراء صرف اپنی ذہنی عیاشی اور اپنی بزدلی، نالائقی، شکست خوردگی اور راہ فراریت کو چھپانے کی خاطر پھیلانا، پنجابی دشمن اور دلال مخبروں کے اعمال اور سیاہ کرتوتوں جیسا عمل نہیں ہے کیا؟

کیا بلوچوں نے قومی آزادی کی جنگ خارجی قوتوں کے مفادات اور ایجنڈے کی خاطر شروع کی تھی؟ اگر فرض کریں جواب ہاں میں ہے تو پھر کیا وہ مفادات اور ایجنڈے اب پورا ہوگئے؟ اگر پورا ہوچکے تو ہھر کیسے کس طرح اب پورا ہوچکے ہیں؟ کوئی دلیل، کوئی واضح پالیسی اور کوئی واضح موقف بلوچ قوم کے سامنے کیوں نہیں پیش ہوتا؟

پھر مخصوص اور محدود سرکلوں کے بجائے یا بلوچ نوجوانوں کو صرف گمراہ کرنے کے بجائے، کیوں جرات کا مظاہرہ نہیں ہوتا ہے کہ کھلم کھلا اعتراف کرنا چاہیئے کہ واقعی یا ہم تھک چکے ہیں، ہم بھٹک چکے ہیں یا کچھ نہیں ہے، پھر بلوچ قوم اور بلوچ نوجوان خود فیصلہ کرینگے کہ کچھ ہے یا کہ نہیں ہے؟ قطع نظر بلوچ قوم اور بلوچ نوجوان، آج بھی سرہتھیلی پر رکھ کر فیصلے کرچکے ہیں، بجائے ایسے من گھڑت اور لغو قسم کی باتوں کے مگر پھر بھی تکلیف ان سادہ لوح اور معصوم بلوچ نوجوانوں کے لیے ہورہا جو اب بھی اپنی لاشعوری اور ناسمجھی کی بنیاد پر اندھیرے اور دھوکے میں ہے۔

کیا کوئی باہر سے آکر بے ادبی معاف کسی کے ماں کے اوپر سوار ہو وہ یہ کہہ کر اسے چھوڑ دے کہ مجھے کوئی مدد نہیں کررہا ہے؟ یہ رائے قابل قبول ہوگا؟ کیا پاکستان اور چین کی دن بدن بڑھتی ہوئی پیش قدمی بلوچ سرزمین اور بلوچ قوم پر دوسری طرف ان کے خلاف مزاحمت اور قومی جنگ نہ ہو، اس لیئے کہ ہمیں امریکہ، اسرائیل، انڈیا، افغانستان، بنگلہ دیش، اقوام متحدہ وغیرہ وغیرہ مدد و کمک نہیں کررہے؟ بس خاموشی اور کنارہ کشی اختیار کرے تو پھر کیا بلوچ قوم کی بقاء و تشخص اس خاموشی کی جرم میں فنا و برباد نہیں ہوگا؟

تاریخ بتاتی ہے جب سامراج لیبیا میں قابض تھے اور لیبیا کے قومی لیڈرعمر مختیار ان کے خلاف مزاحمت میں مصروف عمل تھے، تو اس وقت بھی موقع پرست شکست خوردہ عناصر عمر مختار سے مطالبہ کررہے تھے کہ آپ نہیں لڑو پوری دنیا ہماری حمایت نہیں کررہا ہے، عمر مختار انکار کرتے ہوئے کیا خوب کہتا ہے کہ جنگ دنیا میں نہیں ہورہا، لیبیا میں اور لیبیا کے لیئے ہورہا ہے پھر دنیا حمایت کرے یا نا کرے اس سے کیا غرض؟

بے شک دنیا کی حمایت و مدد کے بغیر گوریلا جنگ کی کامیابی ممکن نہیں لیکن 18 سالوں سے دنیا کی حمایت اور کمک تھا تو پھر آج کیوں نہیں؟ وہ وجوہات اور اسباب کیا ہیں؟ ان کا وضاحت ہونا چاہیئے، ایسا نہیں دنیا آج بھی بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین کے حوالے اپنے موقف پر قائم و دائم ہے، پھر اپنے خود کی غلطیوں، کمزوریوں، راہ فراریت، تھکاوٹ یا جنگی منافع خوری سے پیٹ بھر جانے کے بعد آکر اب موردالزام دنیا کے ناموافق حالات کو ٹہرانا کیا بلوچ قوم، بلوچ نوجوانوں اور خصوصاً شہداء کی خون سے دغا بازی نہیں ہے؟

بالکل دنیا کے اکثر تحریکوں کا مطالعے اور جائزے سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ تحریکوں میں نشیب و فراز کے ساتھ کبھی جنگ کے لیے حالات موافق ہوئے، کبھی ناموافق لیکن وہاں لیڈرشپ اور جہدکاروں کی بصیرت، صلاحیت، دوراندیشی اور مستقل مزاجی ہی تحریک اور جنگ کے لیئے حالات کو موافق بنا چکے ہیں لیکن کیوں ماضی سے لیکر آج تک بلوچ تحریک میں الٹی گنگا بہتی ہے؟ شروع ہوتا ہے پھر دنیا کو مورالزام ٹہرا کر راہ فراریت اختیار کرنا یا سمجھوتہ کرنا گوکہ اس دفعہ بلوچ قومی تحریک، قومی آزادی کی جنگ، نظریاتی و فکری اور تنظیمی بنیادوں پر محو سفر ہے، ایسا ممکن نہیں ماضی کی طرح پھر بھی ماضی تاریخ میں سوالیہ نشان ہے۔

ایسا نہیں کہ اپنے مخصوص ایجنڈے، شکست خوردگی، راہ فراریت، کمزوری اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے تحریک کے موافق حالات کو خود ناموافق حالت میں بدل رہے ہیں۔

جس طرح چیئرمین ماوزے تنگ کہتا تھا، چین اور جاپان کے درمیان جو صورت حال موجود ہے، اسے بنیادی طور پر تبدیل کرسکتے ہیں، اس کے برعکس اگر انقلابی لوگ غلطیوں کا ارتکاب کریں اور اجتناب نہ کریں تو موافق حالات بھی مشکل حالات میں تبدیل ہوسکتے ہیں، اسی طرح 27۔1924 کے انقلاب کی فتح شکست میں تبدیل ہوگئی۔

ایک بات بالکل واضح ہے، اس میں کوئی دورائے نہیں، براہ راست دشمن کی روپ یا دشمن کے کیمپ میں بیٹھ کر مزاحمت اور قومی جنگ کے خلاف لغو، بیہودہ، من گھڑت اور منفی پروپگنڈوں کا کوئی خاطر خواہ منفی اثر، مایوسی اور ناامیدی کی شکل میں بلوچ نوجوانوں اور جہدکاروں پر اثر انداز نہیں ہوگا البتہ نام نہاد قوم پرستی، قومی تحریک، قومی جنگ، قومی مزاحمت اور مسلح جدوجہد سے غیرفعال اور غیر متحرک شکل میں موقع پرستی، مفاد پرستی، جنگی منافع خوری اور بیوروکریٹک سوچ کے روپ میں تحریک کے صفوں میں موجود ہوکر آسانی کے ساتھ بلوچ نوجوانوں اور بلوچ جہدکاروں کو قومی جنگ اور قومی مزاحمت سے ناامید، مایوس اور بدظن کرنا زیادہ مقدار میں نہیں کم مقدار ہی میں ممکن ہوگا۔ تو آج وقت و حالات کا تقاضہ ہے علم و شعور کے ذریعے ایسے عناصر کا ہر سطح پر سختی کے ساتھ حوصلہ شکنی بلاخوف، بلا لحاظ و خاطر انتہائی ضروری ہے۔ ایسے عناصر ظاہری دشمن سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔

بے شک بلوچ قوم، بلوچ قومی تحریک اور خصوصاً بلوچ سرزمین اس وقت انتہائی مشکل اور گنجلک صورتحال سے دوچار ہے۔ بلوچ قوم کی زیست اور مرگ کا سوال ہے، اگر حقیقی بلوچ جہدکار ہمت و قربانی کے جذبے سے سرشار ہوکر دوراندیشی، مستقل مزاجی سے لیکر شعوری اور فکری بنیادوں پر ثابت قدم ہوئے تو قوم کو ان مشکل اور گنجلک حالات سے باہر نکالنا ممکن ہوگا، اپنی قومی طاقت اور قوت کے بدولت خارجی حالات کو مزید موافق حالات میں تبدیل کرنا اس وقت بلوچ قومی قوت اور بلوچ قومی جنگ پر منحصر ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔