مزاحمت، سیاست، مفاہمت یا منافقت-حکیم واڈیلہ

546

مزاحمت، سیاست، مفاہمت یا منافقت

حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ

“ہم ہتھیار نہیں ڈالینگے، ہم جیتیں گے یا پھر مرینگے، اور یہ جنگ جاری رہے گی تمہیں ہماری اگلی نسل سے لڑنا ہوگا اور اسکے بعد اگلی سے جہاں تک میرا سوال ہے میں اپنے پھانسی لگانے والے سے زیادہ جیونگا۔” یہ الفاظ لیبیا کے مزاحمتی رہنماء عمر مختار نے اطالوی جنرل رڈولف گرازیانی سے اس وقت کہے تھے جب عمر مختار انکی قید میں ہوتا ہے اور وہ عمر مختار کو خریدنے کوشش کرتا ہے اور اسے ہتھیار ڈالنے کی پیش کش کرتا ہے۔ مگر عمر مختار پہلے ہی موت کا تعین کرچکا ہوتا ہے اور وہ اپنی زندگی اپنی سرزمین اور قوم کے نام کرکے اطالوی قبضہ گیریت کیخلاف برسرپیکار ہوتا ہے۔ تبھی وہ موت کو زندگی پر اہمیت دیکر تا قیامت امر ہوجاتا ہے۔

تاریخ ایسے بہادر ناموں فرزندوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے اور ان کے ہمت، جذبے، حب الوطنی، قربانی، ایمانداری، عمل اور کردار سے دیگر قومیں اور انکی آنے والی نسلیں اپنے بہتر مستقبل کی خاطر جدوجہد میں انکے نقش قدم پر گامزن ہوکر اپنے آنے والے کل کو سنوارنے اور ساتھ ہی قابض دشمن قوتوں کی سازشوں اور چالبازیوں کیخلاف بہتر انداز میں مزاحمتی جدوجہد کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔

آج بلوچستان کے حالات بھی تاریخ کے ایک ایسے مراحل سے گذر رہے ہیں، جہاں بلوچ نوجوان اپنی زندگی، اپنی جوانی، اپنے خواہشات، اپنی ضروریات، اپنی تمام خوشیاں اجتماعی قومی سوچ پر نچھاور کرکے دشمن سے نبردآزما ہیں۔ بلوچ نوجوان دشمن پر کاری ضرب لگانے کیلئے اپنے سروں کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کررہے ہیں۔ وہ دشمن پر حملہ آور ہونے سے پہلے ہی اس عزم کا اعادہ کرچکے ہوتے ہیں، یہ آخری معرکہ ہوگا اس جنگ کے اختتام میں ہم جسمانی طور پر اپنے دوستوں، ساتھیوں، تنظیم اہلخانہ اور اس دنیا سے دور چلے جائینگے مگر ہماری سوچ و فکر، شعور اور تعلیمات ہمارے دوستوں کی نظریاتی اور شعوری رہنمائی کرتے رہینگے۔ بلوچ سرمچار اگر دشمن سے مقابلے کے دوران جنگ کے میدان میں اپنے سروں کو نچھاور کرکے اپنے آج کو ہمارے کل پر قربان کرکے بھی مسکراتے ہوئے کسی بھی طرح سے کوئی گلہ یا شکوہ کیئے بغیر قومی ذمہ داری انجام دے رہے ہیں، کیا ہم سیاسی حوالے سے اسی طرح سے انکی مزاحمتی جدوجہد کے ساتھ ایمانداری کررہے ہیں۔ کیا ہم انکے پیغام کو شفاف اور واضح انداز میں آگے لے جارہے ہیں یا ہم اس اہل ہیں کہ ہم انکے نمائندگی کا دعویٰ کریں۔

بلوچ قومی تحریک سیاسی حوالے سے ایک ایسے چکرویو میں دھنستی جارہی ہے، جہاں صبح ایک کیڈر انقلابی سیاسی سوچ کا مالک ہوتا ہے تو دوپہر کو انسانی حقوق کا علم بردار ہوتا ہے اور شام کو وہ طبقاتی سیاست کا چیمپین بنکر بھاشن بازی کرتے کرتے جب رات کو سونے جارہا ہوتا ہے تو وہ ایک مزاحمتی سوچ لیکر جارہا ہوتا ہے۔ کبھی وہ مہاتما گاندھی کو اپنا رہنما مانتا ہے، تو کبھی وہ بھگت سنگھ اور چندر شیکھر آزاد کو دنیا کے انقلاب کا ہیرو بتارہا ہوتا ہے۔ جب سیاسی کیڈر اس طرح کے ماحول میں پھنستا ہے تو ایسے حالات میں کچھ مفاد پرست لکھاری اور تنقید سامنے آتے ہیں، جن کا کام ہی عمل کو روکنا اس میں ٹوٹ پھوٹ، سُست روی لانے یا پھر اجتماعی قوت کو غیر ضروری اور فضولیات پر خرچنے کی تلقین کرکے لوگوں اور سیاسی پارٹیوں کے درمیان دوری پیدا کرکے ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے جہاں یہ تنقید نگار اس طرح کے سوالات سامنے لاتے ہیں کہ یہ جو لوگ رہنمائی کا دعویٰ کررہے ہیں یا جن کے کاندھوں پر تحریک کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں، وہ اس لائق نہیں یا ان میں اتنی قابلیت نہیں کہ وہ قومی تحریک کو چلاسکیں یا تحریک کے سمت کا تعین کرسکیں۔

ایسے تنقید نگار یا لکھاری بذات خود کسی بھی طرح کی ذمہ داری لینے سے انکاری ہوتے ہیں، انکا مکمل وقت اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے میں نکل جاتا ہے اگر اس وقت میں سے کچھ وقت نکلتا ہے تو وہ اس وقت کو صرف تنقید کے نام پر بدگمانی اور مایوسی پھیلانے میں گذارتے ہیں۔

اب یہاں ایک اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ ماحول کیوں پیدا ہوا ہے یا کیا جارہاہے؟ اس کے پیچھے کونسے عوامل کار فرما ہیں؟ کیا یہ بس ایک ذہنی کیفیت ہے یا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچ کیڈرز کو اِس طرف دھکیلا جارہا ہے تاکہ بلوچ مزاحمت اور سیاست کے درمیان ایک دوری پیدا کی جائے، جسکا فائدہ پاکستانی ریاست اور پارلیمانی پارٹیوں کو پہنچے۔ آج جب بلوچ قومی تحریک ایک انتہائی حساس اور نازک موڑ سے گذر رہی ہے۔ جہاں بلوچ قومی تحریک میں موجود رہنماؤں نے اپنے سمت کا تعین بہتر کرنے کا عمل شروع کرتے ہوئے، بلوچ قومی یکجہتی کا ثبوت دیکر قابض فوج اور اسکے حواریوں کو بلوچ قومی طاقت کے احساس دلانے کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی یہ باور کرانے میں کامیابی حاصل کی ہے کہ بلوچ قوم کسی بھی طرح سے پاکستانی، چینی اور سعودی عرب کے استحصالی منصوبوں کو بلوچ سرزمین پر قبول نہیں کرینگی۔ ایسے حالات میں بلوچ سیاسی ورکرز کو ایک ایسے بھول بھلیئے کی جانب دھکیلا جائے، جہاں صرف لفاظیت، انسانی حقوق کے مسئلوں میں الجھا کر حقیقی قومی سوال سے دور کیا جائے۔

بلوچ قومی تحریک سے جُڑے تمام ساتھی جو اس حقیقت کو جانتے ہیں، سمجھتے ہیں، مانتے بھی ہیں کہ بلوچستان کے تمام تر مسائل خواہ وہ لاپتہ افراد کا سنگین اور انسانیت سوز مسئلہ ہو، بلوچستان میں جاری فوج کشی ہو، بلوچ قومی ملکیت کو لوٹنا ہو، بلوچستان کو تعلیم و ترقی کے اعتبار سے اندھیرے میں دھکیلنا ہو، ان تمام تر مسئلوں کی بنیادی وجہ قومی غلامی ہے اور ان مسئلوں کا واحد حل قومی نجات، مکمل قومی آزادی اور بلوچ قومی ریاست کی بحالی سے وابستہ ہے۔

آج بلوچستان میں ریاستی ظلم و جبر، بربریت بے شک اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے، ہمارے ہزاروں نوجوان، بزرگ، عورتیں اور بچے لاپتہ ہیں اور ہزاروں شہید بھی کیئے جاچکے ہیں۔ اور جو ہزاروں کی تعداد میں ہمارے پیارے لاپتہ ہیں انکے لیئے آج بھی احتجاجوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ لاپتہ افراد کے اہلخانہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور بی ایچ آر او کی شکل میں ایک منظم تحریک بن کر بلوچ اسیران کی بازیابی کیلئے جدوجہد کررہی ہیں۔ جنکی اخلاقی ہمدردی اور ہمراہ داری ہمارا سیاسی، قومی اور انسانی ذمہ داری بنتی ہے۔ لیکن ہم اس اخلاقی حمایت کو ہی مرکزیت کا شکل دیکر جذباتی پن کا شکار ہوکر اپنے حقیقی منزل سے دور بھٹکنے یا اپنے ان ساتھیوں کے مشن سے راہ فرار اختیار نہیں کرسکتے جنہیں لاپتہ یا شہید ہی اسی لیئے کیا گیا ہے کیونکہ وہ بلوچ قومی غلامی کے انکاری تھے اور بلوچ ریاست کی بحالی کیلئے جدوجہد کررہے تھے۔

بحیثیت سیاسی کارکن ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بلوچ بنجابی ریاست سے اپنی قومی بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں اور دشمن وہ تمام حربے بلوچ قومی مزاحمت و سیاست کو ختم کرنے کی خاطر استعمال کرسکتا ہے، جس سے ریاست کو کم اور بلوچ قومی تحریک کو اجتماعی حوالے سے زیادہ نقصان کا سامنا ہو۔ آج ریاست کے جانب سے ایسے لوگ سامنے لائے جارہے ہیں جو انکے پالے ہوئے ڈیتھ اسکواڈ جیسے بالکل بھی نہیں۔ انکی زبان بھی ریاستی نہیں، انہیں بلوچ حقوق سے لگاؤ ہے، انہیں لاپتہ افراد کے لواحقین سے بھی بہت ہی ہمدردی ہے۔ وہ ریاست کے تمام تر گناہوں کا ذمہ دار بھی ریاست کو ہی سمجھتے ہیں، مگر پھر بھی وہ ریاست کے ساتھ مفاہمت کرکے بلوچ قومی مسئلے کو الجھانے اور ریاست سے ہمراہ داری کرکے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر لاپتہ افراد کی آواز بننے کے بجائے اپنے دو ووٹوں پر اشک بہاتے ہیں۔ ایسے لوگ یقیناً ظاھری طور پران لوگوں جیسے نہیں جو بلوچ خواتین کی عصمت دری پر بھی خوشیاں مناتے ہیں۔ لیکن سیاسی ایجنڈا ان تمام حضرات و گروہوں کا ایک ہی ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کس طرح بلوچ قومی سیاست میں کنفیوژن پیدا کرکے اس مقام پر لے جایا جائے، جہاں مزاحمت اور مزاحمتی سیاست کی روپ مسخ ہوکر سیاسی چال بازی اور دھوکہ دہی کا رخ اختیار کرنے لگے اور ایمانداری کی جگہ منافقت، مفاہمت اور خوش آمدی لینے لگے۔ جہاں انسان کے عمل سے زیادہ اس سے ذاتی قربت اور تعلقات کے بنیاد پر سیاسی رشتے بنائیں جائیں۔

بلوچ سیاسی کارکنان کو سمجھنا چاہیئے کہ ایسے لوگ بلوچ قومی تشخص و بلوچ قومی شناخت کے محافظ نہیں ہوسکتے بلکہ ان کا مقصد ہی بلوچ قومی سوال کو پیچیدہ کرکے گمراہ کن نعروں کے ذریعے بلوچ کیڈرز کو کنفیوز کرکے قومی تحریک سے دور رکھنا ہے۔