قومی تحریک پر ریاستی اثرات ۔ نوروز لاشاری

302

قومی تحریک پر ریاستی اثرات

نوروز لاشاری

دی بلوچستان پوسٹ 

بلوچ قومی تحریک جو اس وقت بلوچستان کے طول و عرض میں زور و شور سے جاری ہے، جس میں اونچ نیچ وقت کا تقاضا ہے، آتے رہتے ہیں۔ قومی جہد کار و دانشور ان حالات کا مقابلہ کررہے ہیں جو کہ آخری فتح تک جاری رہیں گی۔ کچھ وقت سے کچھ معاملات ایسے بھی دیکھے، جس پر سوچنے و انہیں حل کرنے کی ضرورت ہے، ان معاملات کو دیکھا جائے تو ریاست پاکستان کی عین مرضی کیمطابق چل رہے ہیں۔

ڈاکٹر اللہ نذر کا ایک اہم ٹویٹ آیا، جس میں لکھا تھا اب باہر بیٹھے جہد کاروں کو پالیسی بدلنا ہوگا۔ انتہائی مثبت بات تھی لیکن اسی کیساتھ ہم دیکھیں کہ ہمیں اپنی تحریک یا تنظیمی اسٹرکچر، آئین و ضوابط میں تبدیلی کرنی چاہیئے یا نہیں؟
( یہ باتیں تمام سیاسی جماعتوں اور مزاحمتی جماعتوں میں موجود ہیں)

بلوچ قومی سیاسی جماعتوں کے آئین کا جائزہ لیا جائے تو بلوچستان کا وہ حدوداربعہ و بتایا گیا ہے، جو ریاست پاکستان مطالعہ پاکستان میں بتاتی آرہی ہے۔ ہمارے جہد کاروں کو سوچ سمجھ کر تحریک کو وسعت دینی چاہیئے، وہ تحریک سیستان سے ڈیرہ غازی خان تک ہونی چاہیئے، جو بلوچ قوم کا ایک جغرافیہ ہے اپنے آئین میں ردوبدل کرکے پورے بلوچ جغرافیئے تک طول دینی چاہیے۔

بلوچ قومی سیاسی جماعتوں کے آئین کا جائزہ لیں تو بلوچ قوم کی زبانوں میں براہوی و بلوچی لکھا گیا ہے حالانکہ جائزہ لیں تو بلوچ قوم کی جغرافیائی حدود میں بلوچ اس وقت کئی زبانیں بول رہے ہیں، جیساکہ براہوئی، بلوچی، سندھی، سرائیکی، کھیترانی، جدگالی، جعفراکی، لاسی وغیرہ ہیں۔ ہمارے آئین و قول و فعل میں صرف دو زبانوں کا نام لیا جارہا ہے جو کہ دوسری زبان استعمال کرنے والوں کی دل آزاری کا سبب تو نہیں بن رہا؟

بلوچ قومی فوجیں جو موجودہ بلوچستان میں متحرک ہیں وہ سی پیک پر نظر رکھ رہی ہیں، ان کو ڈیرہ غازی خان میں لوٹ مار تیل و گیس یورنیم کی کمپنیوں پر بھی دھیان دینا چاہیئے جو کہ ایک ضروری امر ہے۔

ہمارا میڈیا جو بہت مضبوط نہیں ہے مگر بلوچ معاشرے پر اثر رکھتا ہے، اس کی نظر پاکستان کی طرف سے بتائی بلوچستان کی حدوداربعہ تک محدود ہے، حالانکہ چند روز پہلے ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ میں طالبان کا کیمپ سامنے آیا اس طرح ڈیرہ غازی خان میں دریائے سندھ سے لاشیں برآمد ہوتی رہیں، کبھی اس کو میڈیا کی نظر نہیں کیا گیا۔

ہمارے آئین و باتوں یعنی قول و فعل میں ظاہر کیا جاتا ہے کہ صرف بلوچ قوم کے آبی وسائل بحر بلوچ ہے، اس وقت بحر بلوچ پر جو مسائل ہیں، اس کے علاوہ دریائے سندھ جو بلوچ جغرافیہ کی حدود میں ہے، ڈیرہ اسماعیل خان، تونسہ شریف، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، کشمور، جیکب آباد اس سے سیراب ہو رہا ہے اس دریائے سندھ پر ڈیم بننے جارہے ہیں جو کہ ان علاقوں کا ایکو سسٹم و زراعت کو برباد کرے گا، اس پر بھی سوچنا چاہیئے۔

آخر میں دست بندانا گذارش کرونگا، آپسی اختلافات سے نکل کر بلوچ قوم کے جڑنے کا سبب بنیں، بلوچ تحریک کو ہر کونے کونے تک پھیلائیں ان مسائل پر سوچیں ان کا حل مشکل نہیں ریاست کی مرضی انہیں چیزوں میں ہے کہ بلوچ تقسیم در تقسیم رہے مگر بلوچ قوم، نوجوان پارٹی بازی سے نکل کر جڑنے کی کوشش کریں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔