شہید بابر مجید ایک گوہر نایاب – لطیف بلوچ

1187

شہید بابر مجید ایک گوہر نایاب

تحریر: لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سنگت شہید بابر مجید عرف فرید بلوچ نے جب ہوش سنبھالا ہوگا تو وہ گھر میں اپنے شہید بابا شہید مجید بزنجو بلوچ کے داستان سُنتا ہوگا، اُن کے والد کو جب شہید کیا گیا، اس وقت شہید بابر ماں کی کوکھ ماں تھے، جب جوانی کے دہلیز پر قدم رکھا تو اپنے بھائی ذاکر مجید بلوچ کے جبری اغوا اور ریاستی عقوبت خانوں میں ظلم و جبر اور تشدد کے دردناک قصوں اور وطن کو غلامی کے زنجیروں میں جکڑا دیکھا اور ظلم سے کراہتے ماں و بہنوں کی درد و کرب کو محسوس کیا، بلوچستان کے طول و عرض میں جاری ظلم و بربریت، ریاستی وحشت، نسل کشی، نوجوانوں اور بلوچ دانشوروں، ٹیچروں اور کارکنوں کی گمشدگی و قتل عام، لوٹ مار، قبضہ گیریت نے بابر بلوچ جیسے نوجوانوں کو بندوق اُٹھانے اور قومی بقاء کے لئے لڑنے و مرنے کے لئے مجبور کیا، اس نے مادر وطن کی پکار پر قومی غلامی، جبر اور قبضہ گیریت کے خلاف کمربستہ ہوکر رخت سفر باندھ کر پہاڑوں کا رخ کیا، شہید بابر مجید انتہائی کم عمری میں گھر و بار اور ماں کی محبت سے محروم ہوکر مادر وطن کی محبت میں باغی بنا، زندگی کی عش و عشرت، بہاروں، ماں کی محبت اور پیار کو وطن پر قربان کردیا تھا۔

ایسے عظیم سپوتوں پر دھرتی ماں فخر کرتی ہوگی، سنگت فدائی شہید بابر بلوچ آزادی کی گوہر نایاب کی تلاش میں سمندر میں اُترا تھا، اُن کو یہ معلوم تھا کہ سمندر میں منجدھار ہوتے ہیں لیکن وہ بیچ منجدھار پھنسنے کے بجائے ساحل کے جستجو میں تھا، اس نے بلوچ قوم کو بیچ منجدھار چھوڑنے کے بجائے ظلم و جبر کے بھنور سے نکالنے کے لئے جان کی بازی لگادی، سنگت بابر ایک فدائی تھا جس نے جنرل پر اپنی جان کو فدا کرکے اپنا فرض نبھایا اور ہمیشہ کے لئے امر ہوگیا، وہ گوہر نایاب تھا اور ملنے کے لئے نایاب ہوگیا۔
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم ۔

تاریخ عالم کو اُٹھا کر دیکھا جائے، مطالعہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ بہادر سپوتوں نے اپنے وطن، قوم اور شناخت کو بچانے کے لئے بڑی بڑی طاقتوں سے ٹکرائے ہیں اور اُن کا غرور و گھمنڈ کو پاش پاش کیا ہے، نوآبادیاتی قوتوں نے ہمیشہ مظلوم اقوام کے سرزمینوں پر قابض ہوکر مقامی باشندوں کو طاقت اور جبر کے ذریعے اپنی نوآبادیات میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن مقامی باشندے نوآبادکاری، ظلم و قبضہ گیریت کے خلاف اپنے خون کا نذرانہ دے کر اپنے مستقبل کو غلامی کی گھپ اندھیروں میں گرنے سے بچایا ہے، بلکہ اپنی شناخت اور تشخص کو بچایا ہے، قبضہ گیر ہمیشہ نوآبادیاتی جبر کے ذریعے مقامی باشندوں کو خاموش کرنے کے لئے تشدد کا سہارا لیتا ہے، قبضے کے فورا بعد وہ اُس خطے، سرزمین اور قوم کی تاریخ، تہذیب، شناخت، تشخص، زبان، ثقافت کو مٹانے کی سازشیں شروع کرتا ہے اور ایک جھوٹی تاریخ، درآمدی تہذیب، زبان اور ثقافت کو لوگوں پر مسلط کرنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے لیکن قبضہ گیر کے سامنے وطن کے بہادر سپوت کھڑے ہوکر اُس کے ظلم و جبر کے رسم و رواج کو منانے سے انکار کرکے بغاوت کرتے ہیں۔

انگریز سامراج نے جب بلوچستان میں اپنے قدموں کو جمانے کے لئے پیش قدمی کی تو خان محراب خان اُنکے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوئے اور مزاحمت کا آغاز کیا اور اُنہوں نے مزاحمت کی بنیاد رکھ کر بلوچوں کو درآمدی قبضہ گیروں کے خلاف لڑنے کا درس دیا اور یہ سلسلہ سینہ بہ سینہ بلوچوں میں منتقل ہوتی رہی۔ جب بھی کسی اغیار نے قبضے کی نیت سے بلوچستان کا رخ کیا ہے، بولان مزاحمت کے لئے اُٹھ کھڑا ہوا ہے اور اپنے فرزندوں کو پناہ دی ہے، جھالاوان، ساراوان، مکران سمیت بلوچستان کے تمام سپوتوں کو بولان نے سینہ پھیلا کر تحفظ اور پناہ دی ہے۔ اپنے فرزندوں کو ماں بن کر پیار و محبت اور باپ بن کر سایہ اور شفقت عطا کیا ہے، اس کے علاوہ سنگلاخ پہاڑ ہمیشہ مضبوط قلعہ بنکر اپنے آغوش میں وطن کے جانبازوں کو پناہ دئیے ہوئے ہیں۔

شہید بابر بلوچ بھی دیگر وطن زادوں کے طرح پہاڑوں کے آغوش میں پناہ گزین تھا اور پہاڑوں کے آغوش میں آسودہ خاک ہوا۔ ایسے بہادر فرزندوں کو وطن اپنی آغوش میں لے کر فخر محسوس کرتی ہوگی۔

تجھ کو کتنوں کا لہو چاہئے اے ارض وطن؟
جو تیرے عارض بے رنگ کو گلنار کریں

کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہوگا؟
کتنے آنسو، تیرے صحراؤں کو گلزار کریں؟

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔