شہیدِ وطن استاد اسلم – سیف بلوچ

806

شہیدِ وطن استاد اسلم

سیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

زندگی کے ہر موڑ پر انسان کو درپیش مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، جب تک کوئی ان مشکلات کیلئے جدوجہد نہیں کرتا ہے، تب تک اسے ذلیل و خوار زندگی سے دوچار ہونا پڑتا ہے. انسانی معاملات میں اتار چڑھاؤ ہوتے رہتے ہیں. ان اتار چڑھاؤ کا خاتمہ کرنے کے لئے انسان عملی صورت میں جدوجہد کی راہ ہموار کرتا ہے.

بلوچ قومی آزادی کی تحریک ایک ایسی تحریک ہے جسے آج کے دور میں نہایت ہی سنگین چیلنجز کا سامنا ہے. ان چیلنجز کو محاذ پر موجود راہنماؤں نے شدت سے محسوس کیا ہے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے انھوں نے بھر پور جدوجہد کی ہے، جو ابھی تک جاری و ساری ہے اور کسی حد تک اسے عملی جامہ پہنا چکے ہیں.

ان حالات کو عملی جامہ پہنانے والے راہنماؤں میں شہیدِ وطن استاد اسلم بلوچ کا کردار سب سے نمایاں ہے. جنہوں نے ان چیلنجز کا نہایت ہی دلیرانہ مقابلہ کرکے جنگ کو ایک صحیح سمت دینے میں کامیاب ہوئے تھے، جس کی وجہ سے دشمن ریاست کو ان کی کامیابی ناگوار گذری.

بلوچ سرزمین پر ریاستی درندگی انتہا کو پہنچ چکا ہے. جہاں گاؤں کے گاؤں کو صفحہ ہستی سے مٹایا جا رہا ہے اور خواتین و بچوں کو حراست میں لے کر لاپتہ کیا جارہا ہے. جس کی نسبت بلوچ مزاحمت میں تیزی آئی ہے.

بقولِ شہیدِ وطن استاد اسلم بلوچ کے؛ “یہ جنگ ہم سے زیادہ پنجابی آرمی کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اس کو کس جانب لے جانا چاہتا ہے، اگر کل کو وہ ہمارے عورتوں اور بچوں اٹھائے گا تو ہمیں بھی مجبور ہو کر وہ عمل اپنانا ہوگا. ہو سکتا ہے کل کو ہمارا نشانہ لاہور یا پنڈی ہو”.

اپنی بات پر عمل پیرا ہو کر استاد نے دشمن کے خلاف فدائین مجید بریگیڈ کی حکمت عملی کو اپنا کر سب سے پہلے اپنے فرزند ریحان جان کو رخصت کرکے اس مشن پر روانہ کیا.

شہید ریحان جان نے دالبندین میں چائنیز انجینئرز پر فدائین حملہ کرکے جام شہادت نوش کی. اس کے بعد اس مشن کو تین اور ساتھی “شھید رئیس جان، ازل جان اور رازق جان” نے اپنایا. جنہوں نے کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ کیا جو کئی گھنٹے تک چلتا رہا اور اپنے آپ کو دشمن کے ہاتھوں دینے کے بجائے آخری گولی اپنے اپنے جسم پر اتار دی.

چینی قونصلیٹ پر فدائین حملے نے عالمی میڈیا کو اپنا مرکز بنایا. لوگ طرح طرح کے سوالات اٹھانے لگے کہ سی پیک پروجیکٹ کے بلوچستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے. مثبت یا منفی؟

جس سے پاکستان اور چین کو گہرا صدمہ پہنچا کہ وہ اپنے کالے کرتوتوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ناکام رہیں گے، دشمن ریاست اور اس کے اتحادی ملک کو سب سے زیادہ خوف و خطرہ استاد اسلم بلوچ سے تھا، جس کی حکمت عملی نے انہیں ذہنی طور پر مریض بنا دیا تھا۔

حواس باختہ دشمن ریاست نے اپنے دہشت گرد فیکٹری (طالبان) کے ذریعے استاد کے گھر پر بزدلانہ (خود کش) حملہ کیا، بدقسمتی سے استاد اپنے پانچ ساتھیوں سمیت وہاں موجود تھے، جس کے نتیجے میں وہ اپنے سنگتوں کے ہمراہ اس حملے کی زد میں آکر جام شہادت نوش کر گئے۔

استاد کی شہادت کی خبر کو شروعات میں ہم نے جھوٹا قرار دے کر جھٹلا دیا تھا اور میرے کئی دوستوں نے مجھ سے کہا کہ یہ سچ ہے لیکن میں نے ان کی بات رد کرتے ہوئے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا ہے. لیکن آخر میں سچ واضح ہوا اور یہ خبر درست نکلا، شہیدِ وطن استاد اسلم بلوچ جسمانی طور پر تو ہم سے جدا ہوگئے ہیں لیکن ان کا فکر و فلسفہ رہتی دنیا تک ہر ایک بلوچ کی راہنمائی کرتا رہے گا.

اب ان کا مشن نوجوانوں کے کندھوں پر ہے کہ وہ یکجہتی کے ساتھ اس مقصد کو منزل تک پہنچا کر ہی دم لیں گے. ان کا مشن اور فکر بلوچ عوام اور بلوچ سرزمین کی آزادی کا سورج طلوع ہونے کا سبب بنے گا۔

استاد اسلم ایک نظریئے کا نام ہے، آج استاد نے اپنے خون سے یہ تاریخ رقم کی ہے کہ بلوچ اپنی آزادی کی خاطر مرنا جانتے ہیں، مٹنا نہیں جانتے۔ استاد کی شخصیت کے بارے میں اگر آسان لفظوں میں لکھنا چاہوں تو یہ کہ “جب بھی دشمن پر حملہ ہوگا تو اسے ہر ایک سرمچار میں استاد اسلم دکھائی دے گا”.

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔