شوریدہ سر وائی – برزکوہی

260

شوریدہ سر وائی

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

کئی برس گذر جانے کے بعد آج ایک واقعہ جو لاشعور میں دبا ہوا تھا، اچانک چھلانگ لگا کر شعور کے دہلیز پر قدم رکھے ہوئے ہے۔ خیر علاقے کا نام تو یاد ہے، وہ بلوچستان کے کس علاقے سے تعلق رکھتا تھا، اچھا پڑھا لکھا تھا، وہ بھی بیرون ملک سے، اب یہ صحیح معنوں میں یاد نہیں کہ وہ امریکہ، روس، فرانس، برطانیہ وغیرہ کہاں سے پڑھا تھا۔ کس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھا۔ بہرحال اس کے ساتھ کالج کے زمانے میں کالج میس میں ایک طویل نشست ہوا، مختلف موضوعات پر یعنی تعلیم، غلامانہ سماج، پسماندگی، جہالت، ترقی وغیرہ لیکن اس مہمان نے ہمارے لوگوں کی پسماندگی اور غیر ذمہ داری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک واقعہ بیان کیا۔

انہوں نے کہا کہ بیرون ملک سے آئے ہوئے میرا مہمان اور میرے وہاں کے کلاس فیلو یہاں بطور مہمان میرے پاس تھا، میرے دعوت نامہ پر میرے علاقے آیا تھا، جب صبح ہم گاڑی لیکر بازار گھومتے پھرتے اور واپس جب گھر آتے، حسب معمول شام کو واپس بازار کی طرف نکلتے تھے، تو اس دوست نے مجھے ایک دن بتایا دوست آپ کے علاقے میں پاگل بہت زیادہ ہیں، میں نے فوراً کہا، ہاں پاگل تو ہر ملک، ہر معاشرے اور ہر شہر میں ہوتے ہیں۔ مہمان نے فوراً جواب دیا نہیں دوست مگر اتنی تعداد میں نہیں ہوتے ہیں۔ میں نے کہا ہاں زیادہ پاگل نہیں چار اور پانچ ضرور ہونگے لیکن انہوں نے انکار کرتے ہوہے کہا نہیں دوست مجھے تو بے شمار پاگل نظر آئے، خیر میں چپ کرکے کہا چلو آپ مجھے کل دیکھاو، جب اگلی صبح ہم بازار آئے تو وہ مجھے کہنے لگا وہ دیکھو، یہ دیکھو، وہاں بیٹھے ہیں ادھر بیٹھے ہیں، میں نے ہنستے ہوئے کہا ارے بھائی یہ پاگل نہیں، یہ تو ہمارے علاقے کے اچھے خاصے پڑھے لکھے نواجون اور سفید ریش معتبر لوگ ہیں۔ تو انہوں نے فورا کہاں بھائی میں اور آپ جب بھی یہاں سے گذرتے ہیں یہ لوگ اسی طرح دکانوں کے سامنے فٹ پاتوں پر بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں کیوں؟ میں نے کہا یہ پاگل نہیں ہیں، بس ٹائم پاس کررہے ہیں، انہوں نے حیرانگی سے کہاں ٹائم پاس؟ جی ہاں ٹائم پاس! پھر مہمان زور سے ہنستے ہوئے کہا پھر دوست یہ پاگل پن نہیں اور کیا ہے؟ آپ کو خود علم ہے ہمارے لوگوں کو فارغ وقت نہیں ملتا ہے، بغیر چھٹیوں کے علاوہ لیکن یہاں لوگ پورا دن فارغ ہوکر ٹائم پاس کررہے ہیں، پھر کیسے کس طرح آپ لوگوں کی قوم اور معاشرہ ترقی کریگا؟

میرے خیال میں بحیثیت انسان جانوروں سے ممتاز ہوکر زندگی کا مقصد رکھتا اور سوچتا ہے کہ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ جینے کا مقصد کیا ہے؟ خود زندگی کیا ہے؟ انسان کیوں پیدا ہوا؟ صرف مرنے کے لیئے، اگر زندگی کا مقصد واپس مرنا تھا تو انسان پیدا کیوں ہوا؟ کیا صرف زندہ ہونا ذندگی ہے؟ کیا مرنے کے بعد بھی انسان تاابد زندہ رہ سکتا ہے یا نہیں؟ مرنے کے بعد ہمیشہ مر جانا ہی ہوگا؟

جرمن فلسفی ایمانوئیل کانٹ یہ سمجھتا تھا کہ فلسفی کو تین سوالوں کا جواب دینا ضروری ہے، میں کیا جان سکتا ہوں؟ مجھے کیا کرنا چاہیئے ؟ میں کس چیز کی امید رکھ سکتا ہوں؟

اگر ہم فلسفی کانٹ کے خیالات میں تھوڑا دخل اندازی کرکے یہ اضافہ کریں کہ فلسفی اور کسی بھی جہدکار کو تین سوالوں کا جواب دینا ضروری ہے، خیر ویسے فلسفی بھی جہدکار اور کسی بھی جہد میں مصروف عمل ضرور ہوتا ہے، پھر بھئ مزید وضاحت کے لیے ہم جہدکار کے لفظ کا اضافہ کریں تو بہتر ہوگا سمجھنے میں۔

اگر ایک عام بلوچ، عام بلوچ سے مراد کوئی بلو چ جہدکار نہیں صبح و شام وقت پاسی کرے، وہ کسی ترقی یافتہ اور باشعور انسان کے نقطہ نظر میں پاگل لگتا ہے تو پھر کوئی جہدکار صبح و شام وقت پاسی کرے، وہ کس فہرست میں شمار ہوتا ہے؟ سب سے اہم سوال اس وقت یہی ہے۔

بلوچ قوم کس عہد سے گذر رہا ہے؟ بلوچ قوم کا کل آج اور آنے والا کل کیا ہوگا کیسے ہوگا؟ اس حوالے سے میرے خیال میں سطحی انداز میں اعلیٰ سطحی انداز میں اتنی ڈھیر سارے باتیں، دلیلیں اور منطقیں ہم کہہ چکے ہیں، سن چکے ہیں، پڑھ چکے ہیں، لکھ چکے ہیں اور بول چکے ہوں کہ اگر بار بار دہرائیں تو شاید باتوں میں یکسانیت ہوگا۔

بہرحال ایک چیز تو ضرور ہوگا، جس کو ابھی تک ہم سمجھ نہیں پارہے ہیں یا سمجھنے کی شروع سے کوشش ہی نہیں کررہے یا پھر ابھی تک ہمیں صحیح معنوں میں صحیح طور پر ادراک اور اندازہ نہیں ہورہا ہے یا پھر یہ کہنا پڑے گا بے حسی کی انتہاء ہے کیونکہ آج ہم جس حالت سے گذر رہے ہیں یا جو حالت و وقت کے منظر نامے کی تصویر ہمارے سامنے آج لٹکا ہوا نظر آرہا ہے، وہ پرامید بھی ہے اور دوسری طرف ناامید بھی ہے بلکہ آپ یوں کہیں خطرناک بھی ہے، تو پرامید اس صورت میں ضرور ہوگا جب بحثیت بلوچ خصوصاً بحثیت بلوچ جہدکار ہم اپنی ذمہ داریوں اور ذمہ داریوں کے تقاضات کو سمجھ سکیں اور ان پر عمل درآمد کریں اور ناامیدی اور خطرناک صورتحال اس وقت جب ہم بحثیت جہدکار عام لوگوں کی طرح جدوجہد اور تحریک کے لبادے میں خود کو اوڑھ کر صرف وقت پاسی کریں یا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کسی وحی کے نزول کا انتظار کریں، میرے خیال میں وہ وحی 13 نومبر 1839 کو جب انگریز بلوچستان پر قابض ہوا، اس وقت سے لیکر آج تک نہیں آیا اور ابھی بھی نہیں آئیگا جب تک بلوچ قوم اپنے پاوں پر کھڑے ہوکر خود کچھ نہیں کرتا اور جب تک بلوچ جہدکاروں کو مکمل اپنی قومی ذمہ داریوں کا احساس نہ ہو۔

آخر وہ ذمہ داری اور تقاضات کیا ہیں، جن کا بار بار ذکر ہوتا ہے اور بار بار سننے سے ہمارے کان پھٹ گئے ہیں؟ شاید وہ میرے کہنے سے یا بیان کرنے سے قابل قبول اور قابل عمل نہ ہوں، پھر بھی اگر ہم تحریکوں اور انقلابی جنگوں کی تاریخ کی طرف کچھ وقت دیانتداری سے رجوع کریں اور سمجھنے کی کوشش بھی کریں، تو ہمیں بخوبی علم ہوگا کہ تحریکوں اور جنگوں میں انقلابی قیادت سے لیکر کارکنوں تک کیا کردار رہا ہے اور اپنے اپنے ذمہ داریوں کو کس طرح اور کیسے وہ نبھا چکے ہیں؟ اور پھر ٹھنڈے دماغ اور سنجیدگی سے ذرا بھی سوچ لیں، آیا ہم بحثیت جہدکار اپنے اصل ذمہ داریوں کو نبھارہے ہیں یا تحریکی تقاضات کو پورا کررہے ہیں؟ اگر تقاضات اور ذمہ داریاں پورا ہورہے ہیں، کچھ کوتاہی غیرذمہ داری اور وقت پاسی نہیں ہورہا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کس تراذو اور پیمانے سے اس چیز کی ہم ناپ و تول کررہے ہیں؟ اس پیمانے اور نقطہ نظر کا معیار کیا ہے؟ کیا واقعی وہ نقطہ نظر اور پیمانہ مکمل طور صحیح اور مستند ہے؟ یا پھر وہ بھی ہمارے سوچ و اپروچ اور خواہشات کے مطابق نتیجہ فراہم کرتا ہے؟ تو پھر کیا ہمارا اپنے سوچ و اپروچ اور زوایہ نظر کے مطابق چلنے والے ترازو اور پیمانے کا نتیجہ مکمل صحیح اور مطمین کن ہے؟

بہرحال کوئی بھی بلوچ جہدکار جہاں بھی ہو اور جس طرح قومی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہے یا متحرک و غیر متحرک ہے، وہ ہر دن کے اختتام پر ٹھنڈے دماغ سے یہ سوچے کہ آج کا دن کیسے گذر گیا اور دن کے کتنے حصے میں نے اپنے قومی ذمہ داریوں اور قومی کام پر صرف کیئے؟ کتنے حصے وقت پاسی اور ذاتی کاموں پر صرف کیا؟ پھر خود صحیح معنوں اور انتہائی آسان طریقے سے نتیجہ واضح انداذ میں سامنے آئے گا کہ فکر و نظریہ مخلصی ایمانداری کیا بلا، کیا دیو ہے؟ اور پھر دنیا کی دیگر تحریکوں اور جنگوں میں جہدکاروں کے کردار سے باعلم رہنا بھی بے حد ضروری ہے۔

عالمی و علاقائی یلغاروں، خلفشاروں اور سازشوں کے سمندری لہروں میں ڈوبتا ہوا بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین کے مالکوں اور وارثوں سے وقت کی تقاضہ یہی ہے کہ انتہائی تیزی کے ساتھ کچھ نہیں بلکہ حد سے زیادہ ہی کچھ کرکے دکھانا ہوگا کیونکہ قابض ریاست پاکستان اور سامراج چین سے ملکر آج حت الوسع یہ کوشش کررہا ہے کہ سفارتی، معاشی اور عسکری تعلقات کے بنیاد پر دوسرے ملکوں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنا یا ان پر دباو ڈالنا، اندرونی مقصد اور مقاصد صرف اور صرف بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک کو زیر کرنا ہے تو اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھ کر وقت و حالات بلوچ قوم سے قومی قوت اور منظم قومی جنگ کا تقاضہ کرتا ہے، اسی بنیاد پر جہدکاروں میں احساس ذمہ داری اور حالات کا صحیح ادراک و پختہ شعور ہونا انتہائی ضروری ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔