رفتید ولی نہ از دلِ ما – عبدالواجد بلوچ

216

رفتید ولی نہ از دلِ ما

تحریر:عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

“یہ راستہ ہم نے چنا ہی ہے شہادت نوش کرنے کے لئے”

استاد اسلم بلوچ بالآخر جام شہادت نوش کر گئے۔ دکھ ہے اور بے حد ہے، یادیں ہیں اور بے حساب ہیں، سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا لکھیں اور کیا کہیں؟ ایک عہد ساز ہستی جس کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے، کوئی ایک شعبہ اور کوئی ایک جہت نہیں بلکہ استاد نے ہمہ جہت خدمات سرانجام دیں، درس و تدریس کو دیکھ لیجئے کہ ڈھیر سارے مشاغل، آئے روز کے تنظیمی کارکردگی، گوریلوں کی تربیت، سیاسی کارکنان کی رہنمائی، اندرون وبیرون ملک اسفار، حالات کے نشیب و فراز اور زندگی کے مختلف مراحل میں عشروں سے استاد اسلم بلوچ تدریس پر رونق افروزنظر آتے ہیں۔ اگر انہوں نے زندگی میں اور کوئی خدمت نہ بھی سرانجام دی ہوتی تو محض یہی ایک خدمت کافی تھی کہ وہ بلوچ تاریخ اور آزادی کے شاہراہ پر اپنے لختِ جگر شہید ریحان جان کو وطن پر فدا کرنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔

استاد اسلم بلوچ کی شہادت بلوچ قوم سمیت مظلوم قوم کے لیے ایک انتہائی دکھ کی گھڑی ہے، قوم آج ایک ایسے رہنما سے محروم ہو گئی ہے، جو درحقیقت ان کی امنگوں کا ترجمان تھا، ایک ایسا رہنما جو مظلومیت کا درد رکھتا تھا اور قومی تشخص و وحدت کے لیئے وہ تمام عمر سرگرم رہا۔

استاد اسلم بلوچ مستند گوریلا رہنماء سمیت سیاست کے ایک مسلسل اور بے نظیر مثال تھے۔ انھوں نے کئی تکالیف و مصائب کے باوجود نوجوانوں کی مانند ملی، سیاسی اور قومی خدمات سرانجام دیں۔ ان کی ہمت، جوش و ولولہ، خلوص اور مقصد سے لگن قابل رشک اور کارکنوں کے لیے مثال تھی۔ انھوں نے اپنی بیماری با بعدِ زخمی ہونے کو مقصد میں رکاوٹ نہ بننے دیا، وہ بلوچ قومی سیاست کو شخصیات کے حصار سے نکالنے اور اتحاد کے سب سے بڑے امین تھے۔ استاد اسلم بلوچ کی ہمہ جہت قیادت پاکستان کے اندر تمام مظلوم قوم جن میں سندھی، پشتون تحریکوں کے لیے قائد اور رہنماؤں کا درجہ رکھتے تھے۔ ان کی شہادت جنگل میں آگ کی طرح پھیلی تمام مظلوم قوم کے لیے نقصان عظیم ہے، وہ اپنے پیچھے ایک ایسا خلا چھوڑ گئے ہیں جسے بھرنے کے لیے ایک مدت درکار ہے.

استاد اسلم بلوچ کون تھے ان کی شخصیت ایک روحانی باپ کی مانند تھی، ہمارے لئے وہ کس طرح اس تحریک آزادی سے جڑے رہے اُن کی اپنی زبانی کہ

“بنیادی طور پر میرا تعلق مستونگ سے ہے لیکن میری پیدائش شال (کوئٹہ ) میں ہوئی۔ میں ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ ہمارے گھرانے میں، میں اپنے چار بھائیوں میں سے سب سے چھوٹا ہوں۔ ہمارے خاندان میں صرف میرے بڑے بھائی کا قوم پرستانہ سیاست کے حوالے سے بی ایس او ( بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن)سے وابستگی رہا تھا۔ وہ ہی میرے استاد تھے ۔کوئی ایک ایسا مخصوص واقعہ نہیں جس نے مجھے سیاست کے طرف مائل کیا۔ زمانہ طالب علمی سے اپنے لوگوں کی حالت ایک احساس دلاتا تھا جیسے کہ بہت کچھ غلط ہورہا ہے۔ نظام تعلیم سے لیکر نظام حکومت تک سب میں انتہائی شدت سے بیگانگی کا احساس ہوتا تھا۔ شروع سے اس بات پرقائل تھا کہ مزاحمت ہی ہمیں بچا سکتا ہے۔ نعرہ بازی جھنڈے لہرانے اور الیکشن ورکر بنتے دوستوں سے دور رہا۔ جب نواب خیر بخش مری افغانستان سے جلا وطنی ختم کرکے واپس آئے تو انکے حق توار سٹڈی سرکل سے جوڑ گیا اور وہی سے جدوجہد کا آغاز کردیا”

آخر وقت انہوں نے نئی تاریخ رقم کرکے بلوچ قوم کو یہ احساس دلایا کہ بلوچ قومی تحریک کی آبیاری شھدائے آزادی اور مخلص کارکنان کی مرہون منت ہے، ان کی بلوچ قوم میں کس قدر اہمیت ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں تھی کہ انہون نے بی ایل اے جیسی مضبوط سیٹ اپ کو آمریت کے چنگل سے نکال کر قومی امنگوں کے راستے پر گامزن کیا “براس” کے نام پر اتحاد کا تصور پیش کرکے بلوچ قومی تحریک کو اپنی حقیقی مقام سے روشناس کروایا۔

استاد اسلم بلوچ تحاریر کے حوالے سے وقتاً فوقتاً قلم کے ذریعے جو سفر شروع کیا، اس کا بھی ایک پورا جہان آباد کیا، ہم نے تو ابتداء میں شوشل میڈیا سمیت تربیتی سیریز میں ہی انہیں دیکھا، قلم پر کیا گرفت تھی، حالات پر کیسی نظر تھی اور علمی طور پر کیا رسوخ تھا اور پھر اکابر کی نسبت و صحبت نے ان کے اندر کے قلم کار کو کندن بنا دیا تھا، استاد اسلم بلوچ کا قلم یوں تو تاریخ کے ہر موڑ پر اپنی جولانیاں دکھاتا نظر آتا ہے لیکن ان کی قیادتانہ صلاحیت گوریلا جنگ کے محاذ پر وہ انمٹ نشانات ثبت کرگئیں جو یقیناً ڈاکٹر چی، ہوچی منہ، نیلسن منڈیلا، مارٹن لوتھر کنگ جیسے کردار تھیں بلوچ تاریخ پر. آج استاد ہمارے درمیان نہیں لیکن ان کی دی ہوئی فلسفہِ قربانی رہنمائی کے انمٹ تربیت اور شفیق استاد جیسا رویہ اپنے طلباء، اپنے کارکنان اپنے سپاہیوں کے لئے قائدانہ کردار کے طور پر ہمیشہ دامن میں بندھیں ملیں گے! قومی تحریک کے ان سپاہیوں کو جنہوں نے استاد اسلم بلوچ کے ساتھ جام شہادت نوش کرکے اپنی کمٹمنٹ اور وفاداری کا ثبوت پیش کیا انہیں لال سلام.

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔