دشمن کا ٹارگٹ – پندران زہری

198

دشمن کا ٹارگٹ

پندران زہری

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا میں اج تک جتنی بھی جنگیں ہوچکی ہیں، ان کا اگر تھوڑا سا جائزہ لیا جائے، تو ان میں دونوں فریقوں میں سے ایک نے شکست کھایا ہے، دوسرے نے اپنے جیت کا جھنڈا لہرایا ہے۔ جیت اس کی ہوئی ہے، جس نے اپنے نوجوانوں کو موقع دیا ہے اور اپنے دشمن کے نوجوانوں کے نفسیات کو سمجھ کر ان کو کسی بھی طریقے سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ وہ جنگ جیت کردنیا کے سامنے اپنا طاقت منوایا ہے، اگر نوجوانوں کا توجہ اس مقصد سے ہٹایا جائے تو وہ طاقت کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے۔ دوسری طرف دیکھا جائے کہ اس جنگ یا طاقت کوبنانے کے لیئے کتنا محنت اور مشکلات کھٹن حالات کا سامنا کرتے ہوئے یہاں تک اس طاقت کو لایا گیا ہے، جتنی محنت و خواری اور تکلیفوں کا ہر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو بلوچ کا دشمن بھی اپنی شکست کو دیکھ کر بلوچ نوجوانوں کا نفسیات سمجھ کران کو اسی طرح اپنے قابو میں لے رہا ہےاور ان کو اپنے لیئے استعمال کرتا تھا لیکن اج کل اس طرح نہیں بلکہ وہ کسی اور طریقہ کار کو اپناتے ہوئے ہمارے نوجوانوں کو برباد کر دیتا ہے۔ خیر میں برباد نہیں کہونگا بلکہ مار دیتا ہے، کیونکہ بلوچستان کے کسی بھی کونےمیں دیکھا جائے وہاں پر منشیات کو عام کیا گیا ہے، ایک چھوٹے سے شہر میں کم از کم دس سے بیس منشیات کے اڈے ہونگےاور ان اڈوں کے مالکان کو چھوٹ دیا جاتا ہےبلکہ مدد بھی کرنا اس ریاست کی اولین ترجیح ہوتی ہےاور ان اڈوں کی حفاظت کے لیے کئی اہلکار تعنیات کئے جاتے ہیں، بدلے میں ریاست کو ٹیکس اور اس کے لیئے کام کرنا ہوتا ہے۔

ریاست مختلف قسم کے حربے استعمال کرکے ہمارے نوجوان کو اپنے عظیم مقصد سے ہٹا کران کو گمراہ کر دیتا ہے، اب ان میں سے بآسانی بیروزگار نوجوان ان چالوں کے شکار بنتے ہیں کیونکہ بیروزگار نوجوان زندہ رہنے کے لیے ہروہ کام پر مجبور ہوتے ہیں، ان کے اپنے گھربارہوتا ہے، ان کے لیئے کھنا پینا خرچہ وغیرہ یہ سب ضرورت کے چیزیں ان کو ہر حال میں چاہیئے، بہت کم لوگ ہیں جو اس کھٹن وقت میں برداشت کرتے ہیں اور کسمپرسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوتے ہیں، ہوسکتا ہے اس زندگی میں ان کے ضمیر مطمین ہو۔

میں نے پورے بلوچستان میں جہاں کہیں ریاست کے آلہ کار یا پالتو کتے دیکھے ہیں، ان گروہوں میں کچھ چیزیں عام دیکھا ہے۔ غنڈہ گردی کرنا، منشیات کا کاروبار کرنا، منشیات کو عام کرنا، چوری کرنا، دوسروں کے جائداد قبضہ کرنا، بھتہ وصول کرنا، اغوا کرنا، ان سے پیسہ لینا، غیر مذہب کے عورتوں کے ساتھ زبردستی شادی کرنا یہ سب چیزیں ان کے لیے آسان ہے کیونکہ ریاست کی طرف سے ان کو کھلی چھوٹ دی جاتی ہے، ایسا کرکے لوگوں میں ایک قسم کا خوف پھیلاتے ہیں، اب ان گروہوں سے کوئی ٹکر نہیں لیتا، اگر کوئی لینے کی کوشش کریگا، اس کی لاش کچھ دنوں بعد ملیگا اور وہ ان گروہوں کے افراد کو قبائل کا میر یا سرداری کا دستار پہنا کر ان قبائل پر مسلط کردیتے ہیں۔

اب اس عظیم مقصد کے لیئے اور اس عظیم مقصد کو اگر ہم آگے لے جانا چاہتے ہیں، تب ہمیں اپنے نوجوانوں کوموقع دینا چاہیئے، ان کی رہنمائی کرنا چاہیئے، ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہے تاکہ وہ آگے آکر اپنے صلاحیت اور طاقت کے مطابق ہمارے جہد کو آگے لے جائیں، ہمارا دشمن چاہے جتنا طاقتور ہوجائے، اس کےلیئے ہمیں بھی طاقتور بننا ہے۔ اس کے لیئے ہمیں اپنے نوجوانوں پر تھوڑا سا محنت کرنا ہوگا، اپنے فخر اورغرورکو پیچھے رکھ کر تاکہ وہ ہماری اس محنت سے متاثر ہوکر اس اجتماعی سوچ و فکر میں شامل ہوجائیں، ہمارے ساتھ ساتھ ان کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ بھی دنیا کی ان انقلابی تحریکوں پر نظر دوڑائیں جواپنے قومی بقاء اور قومی تشخص کے لیئے جدوجہد کررہے ہیں اور اپنے قومی جہد پر ایک نظر ضرور دوڑائیں۔

اپنی ذاتی خواہش و آسائش اور چھوٹے چھوٹے مقاصد چھوڑ کر اپنے عظیم مقصد کی راہ پر گامزن ہوجائیں، ریاست کو اور ریاستی چالوں کو سمجھ کر ان کی بلیک میلنگ میں نہ آئیں، اپنے خیرخواہ کو سمجھ کر ان کے ہمسفر ہوجائیں، ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر دشمن کویہ پیغام دے دیں کہ ہمیں کوئی بھی ہمارے راستے سے نہیں ہٹا سکتا. ہمارے تمام نوجوانوں سے گزارش ہے کہ وہ حقیقت کو سمجھ کر حقیقت کو قوم کے سامنے لائیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔