بلوچ لاپتہ افراد کے مسئلے کو انسانی بنیادوں پر دیکھا جائے – جلیلہ حیدر

242

جام صاحب سے گزارش ہے کہ آپ صرف اپنے پارٹی کے وزیر اعلیٰ نہیں ہے بلکہ آپ اس پورے صوبے اوران لوگوں کے بھی وزیر اعلیٰ ہے جن کو آپ پسند نہیں کرتے ہو۔ شہری کیمپ کا حصہ بنے ، ڈرے نہیں کیونکہ یہ شہری حقوق اور آئین کی بات ہے لہٰذا آواز اٹھائے اس سے پہلے کہ آپ بھی اٹھا لیے جائے۔

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور بلوچ ہیومن رائیٹس آرگنائزیشن کی جانب سے بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے قائم کیمپ میں احتجاج جاری ہے جہاں لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے لوگوں کی آمد جاری رہی ہے ۔

احتجاجی کیمپ میں موجود وومن ڈیموکریٹک فرنٹ کے رہنماء ایڈوکیٹ جلیلہ حیدر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو کہا گیا کہ وہ لاپتہ افراد کے کیمپ کا حصہ نہیں بنے لیکن لوگ احتجاجی کیمپ آرہے ہیں اور شاید یہ احتجاج مزید وسعت پائے اور لوگوں کی تعداد مزید زیادہ ہو۔میں تمام انسانی حقوق کے اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد اورسیاسی کارکنان سے امید کرتی ہوں کہ وہ آکر اس کیمپ کا حصہ بنے گی کیونکہ یہ سوال عوامی آزادی، شہریوں کے حقوق کا ہے، یہ سوال کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ یہ مسئلہ پورے پاکستان کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں تمام افراد سے گزارش کرتی ہوں کہ وہ ایک دوسرے کی آواز بنے کیونکہ بلوچ گمشدہ افراد کا مسئلہ ایک انسانی مسئلہ ہے اس کو انسانی بنیادوں پر دیکھا جائے۔

جلیلہ حیدر نے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جام صاحب سے گزارش ہے کہ آپ صرف اپنے پارٹی کے وزیر اعلیٰ نہیں ہے بلکہ آپ اس پورے صوبے اوران لوگوں کے بھی وزیر اعلیٰ ہے جن کو آپ پسند نہیں کرتے ہو۔ آپ بااختیار ہو، آپ ان بچوں اورماؤں کے درد کو سمجھیاور ان کی آواز بنے۔ہمیں پتہ ہے کہ یہ بہت مشکل کام ہے لیکن آپ کا کردار بہت اہم ہے کیونکہ آپ سرپرست ہو لہٰذا آپ احتجاجی کیمپ آکر ان کے درد کا حصہ بنے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے نمایا کام کرکے تاریخ میں اچھے الفاظ یاد کیے جائے۔

انہوں نے کہا کہ سردی میں اضافے کے باوجودلاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے احتجاج جاری ہے اور میں تمام شہریوں سے گزارش کرتی ہوں کہ روزانہ کیمپ کا حصہ بنے ، ڈرے نہیں کیونکہ یہ شہری حقوق اور آئین کی بات ہے لہٰذا آواز اٹھائے اس سے پہلے کہ آپ بھی اٹھا لیے جائے۔