بلوچ طلباء کے جبری گمشدگی میں تیزی – توارش بلوچ

230

بلوچ طلباء کے جبری گمشدگی میں تیزی

توارش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں ایک طویل عرصے سے ریاستی ایجنسیاں اور فوج انسانی حقوق کو روندتے ہوئے بلوچ طلباء کو جبری طور پر لاپتہ کر رہی ہیں، جس کی بعد میں سالوں سال تک لوگوں کو خبر نہیں ہوتی کہ اُنہیں زمین نگل گیا یا آسمان کھا گئی، ریاستی زندانوں میں آج ہزاروں کی تعداد میں نوجوان لاپتہ ہیں۔ بلوچستان کے ہر کونے سے طلبا لاپتہ گمشدہ ہیں، یہ نہ روکنے والا سلسلہ آج بھی زروں سے جاری و ساری ہے جس میں ہر نئے دن تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

بلوچستان میں گمشدگی کا سلسلہ تو پاکستان بننے سے ہی شروع ہوا ہے، ہر فوجی آپریشن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ لاپتہ کئے گئے ہیں، جن کی آج تک خبر نہیں 1973 کے فوجی آپریشنز میں بھی بلوچ ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیوں کے ہاتھوں لاپتہ ہوئے جن کے ساتھ کیا کیا گیا آج تک لوگوں کو پتہ نہیں ہے، اُن آپریشنز میں بچے اور خواتین بھی کافی تعداد میں گمشدہ کر دیئے گئے تھے، یہ وہی سلسلہ ہے جو آج تک رکا نہیں ہے بلکہ روز بروز اس میں شدت آ رہی ہے بالخصوص 2000 کے بعد جب بلوچ قومی تحریک ایک نئے سرے سے شروع ہوئی، جس میں عام نوجوان کافی تعداد میں شامل ہوئے جس کو سبوتاز کرنے کیلئے ریاستی اداروں نے عام طلباء پر اپنا قہر نازل کیا، جس کا باقاعدہ آغاز 2008 سے شروع ہوا جب بلوچستان کے مختلف علاقوں سے نوجوانوں کی جبری گمشدگی کا آغاز ہوا۔ اُس دن سے آج تک ان گیارہ سال کے دورانیے میں ہزاروں نوجوان لاپتہ کیے گئے ہیں، چاہے ان کی وابستگی کسی سیاسی تنظیم سے رہا ہے، چاہے وہ سوشل کارکنان رہے ہیں، ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے نوجوان ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ ہیں جبکہ اس میں روز بروز شدت دیکھنے میں آرہی ہے۔

پیچھلے ایک مہینے سے بلوچ طلباء تنظیم بی ایس او آزاد کے سابقہ مرکزی انفارمیشن سیکرٹری شبیر بلوچ کی بہن سیما اور اُن کی شریک حیات زرینہ دیگر بلوچ طلباء کی لواحقین کے ساتھ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے دھرنے میں بیٹھے ہیں اور اپنے نوجوان بھائیوں کی انتظار میں شال کی سردی میں بیٹھے ہیں، اس دھرنے میں بی ایس او آزاد کے سابقہ سی سی ممبر نصیر بلوچ کی شریک حیات زبیدہ اور چھوٹی بیٹی ماہ رنگ اور چھوٹا بچہ سنجر جان بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ خاران سے لاپتہ نوجوان عامر بلوچ کی بہنیں سمیت دیگر کئی گمشدہ افراد کی خاندانیں شریک ہیں۔

یہ تاریخی احتجاج کوئٹہ کی اس سردی میں آج بھی جاری ہے لیکن کیا اس احتجاج سے پاکستانی ریاست کو کوئی فرق پڑا ہے؟ مجھے نہیں لگتا کیونکہ اس دورانیے میں جب کوئٹہ میں یہ احتجاج ایک وسیع پیمانے پر جاری ہے، تو دوسری طرف بلوچستان کے کونے کونے میں پاکستانی فورسز لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کر رہی ہے، بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جس میں مشکے، زامران، بلیدہ، کوئٹہ، نوشکی، کراچی، تجابان، خاران اور دوسرے علاقوں سے درجنوں افراد لاپتہ کیئے گئے ہیں۔

بی این پی مینگل اور کچھ سرکاری سرفہرست پر چلنے والی پارلیمانی پارٹیاں کچھ وقتوں سے یہ دعویٰ کرتی آ رہی ہیں کہ بلوچستان سے جبری طور پر لوگوں کی گمشدگی میں کمی واقعی ہوئی ہے، جو ایک سراسر جھوٹ پر مبنی ڈرامہ ہے جب کے اس کے برعکس گمشدگی میں مزید تیزی آئی ہے۔ بلوچستان کے دیہاتی علاقوں میں لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کرنا تو ایک معمول کی بات ہے، آئے روز وہاں سے درجنوں لوگوں کو گمشدہ کیا جاتا ہے پھر کچھ لوگوں کو پیسے لیکر بازیاب کیا جاتا ہے جبکہ زیادہ تر لوگوں کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں مل جاتے ہیں جو ہنوز جاری ہے۔
لیکن کچھ وقتوں سے یہی دیکھنے کو مل رہا ہے کہ بلوچستان کے شہروں سے طلباء کی جبری گمشدگی میں کافی تعداد میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے، بلوچستان میں سیاست پر قدغن لگا ہوا ہے، سیاسی سرگرمیاں دہشت گردی کے زمرے میں شمار کئے جاتے ہیں۔ پیچھلے سال کراچی سے درجنوں طلباء گرفتار کر لیئے گئے تھے، جن میں بلوچ طلباء تنظیم بی ایس او آزاد کے مرکزی سیکریٹری جنرل عزت بلوچ اور دو سی سی ممبر اور سیاسی و سماجی کارکن حسام بلوچ اور نصیر بلوچ اور بی این ایم کا سینئر کارکن رفیق بلوچ شام تھے، اس کے ساتھ ساتھ بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کا مرکزی انفارمیشن سیکرٹری نواز عطا دیگر آٹھ طلبا سمیت لاپتہ کیئے گئے تھے، جن میں زیادہ تر آج بھی لاپتہ ہیں۔ اُسی سلسلے کو وسعت دیتے ہوئے ریاستی اداروں نے کوئٹہ سے اب طلباء کی گمشدگی کا آغاز کیا ہے۔ بلوچستان کے دیگر تمام اضلاع ریاستی فورسز کی جبر ظلم و زیادتیوں کی وجہ سے جنگ زدہ خطے بن چُکے ہیں جہاں تعلیم جاری رہنے کیلئے کوئی سہولت میسر نہیں ہے جس کی وجہ سے بلوچ نوجوان علم کے پیاس کو بجانے کیلئے کوئٹہ اور کراچی جیسے شہروں کا رخ کرتے ہیں تاکہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں لیکن بدقسمتی سے یہاں بھی ریاستی فورسز انہیں اپنی جبر کا نشانہ بناتے ہوئے لاپتہ کر دیتے ہیں۔

گذشتہ رات کوئٹہ کے مختلف علاقوں سے ایک ہی رات تین طلباء کو گمشدہ کیا گیا، جن میں بلوچستان کے جنگ زدہ علاقے آواران سے تعلق رکھنے والے محمد امین بلوچ اور بی ایس او نامی بلوچ طلباء تنظیم کے مرکزی سینئر جوائنٹ سیکرٹری جیئند بلوچ اور حسنین بلوچ شامل ہیں تینوں نوجوان طالبعلم ہیں اور مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن کی گمشدگی اس بات کا خدشہ ظاہر کر رہی ہے کہ ریاست اب شہروں میں بیٹھے بلوچ طلبا پر ایک وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن کرنے کے در پر ہے۔

تینوں طلبا کسی بھی غیر ریاستی سرگرمیوں کا حصہ نہیں رہے ہیں بلکہ اپنی تعلیم کو جاری رکھے ہوئے تھے کہ اُنہیں ریاستی اداروں نے جبری طور پر لاپتہ کرتے ہوئے ایک واضح پیغام دیا ہے کہ بلوچ طلباء کیلئے کہیں پر بھی جگہ نہیں ہے اور بلوچ طلبا بلوچستان کے ہر کونے میں ہوں، لاپتہ کیئے جائیں گے جس کی مثال ان پرامن طلبا کی جبری گمشدگی ہے جو صاف صاف ریاستی مائینڈسٹ کو ظاہر کر رہی ہے، یہاں پر بی این پی سمیت دوسرے پارلیمانی پارٹیوں کا یہ جھوٹا شورش بھی اپنے انجام کو جاتا ہے کہ ریاستی ادارے بلوچ مِسنگ پرسنز کو رہا کریں گے کیونکہ حقائق یہی بتاتے ہیں کہ اس میں آنے والے وقت میں مزید شدت آئی گی سردار آختر مینگل کو چاہیئے کہ وہ اپنے پارٹی کے چھ نکات میں سے مِسنگ پرسنز والا نکتہ نکال دیں کیونکہ بلوچستان میں ریاستی ادارے کسی بھی صورت اپنا رویہ تبدیل نہیں کریں گے۔

لیکن روز بروز طلباء کی جبری گمشدگیوں کے خلاف عالمی اداروں سمیت پاکستانی انسانی حقوق کے تنظیموں کی خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے، جو ایک طرف انسانی حقوق کے دعویدار ہیں تو دوسری طرف بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی کے خلاف چپ کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں، جن کی خاموشی ان کو بھی مجرم بناتی ہے ایک مرتبہ پھر سے ہم ان انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ امین بلوچ، جینئد بلوچ اور حسنین بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے ان کی زندگی بچانے میں اپنا کردار ادا کریں جو کسی بھی غیر سرکاری سرگرمی و دہشت گردی میں شامل نہیں رہے ہیں بلکہ بےگناہ طلباء ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔