بلوچ سماج کا حقیقی اور بڑا تضاد حاکم اور محکوم کا ہے – بشیر زیب بلوچ

460

’’بلوچ سماج انتہائی مختلف اور پیچیدہ سماج ہے، مختلف تضادات مختلف شکلوں میں موجود ہیں۔ کئی جگہوں پر مارکسی جدلیات سے بلوچ سماج کی تخصیص و مطالعہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کچھ اخذ کرنے میں مارکسی جدلیات بھی بے بس ہوتا ہے۔تو پھر میرے خیال میں انتہائی آسان لفظوں اور سنی سنائی خیالات کے توسط سے بلوچ سماج کی تضادات پر فیصلہ کرنا درست نہیں ہوگاالبتہ رائے قائم کرنا ہر ایک کا بنیادی حق ہوسکتا ہے۔‘‘ بلوچ نیشنل موومنٹ کے تربیتی پروگرام سے سابقہ چیئرمین بی ایس او آزاد بشیر زیب کا اظہارخیال

بلوچ نیشنل موومنٹ کے تربیتی پروگراموں کے سلسلے میں آج بروز اتوار بلوچ سماج میں تضاد کی تخصیص اور تجزیے کے لئے “کیا بلوچ سماج میں تضاد موجود ہے؟‘‘ کے عنوان سے ایک نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابقہ چیئرمین بشیر زیب بلوچ نے شرکاء کو موضوع پر لیکچر دیا، پروگرام میں پارٹی کارکنوں کے علاوہ دیگر آزادی پسند پارٹی اور تنظیموں کے کارکنوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

چیئرمین بشیر زیب نے کہا کہ سادہ معنوں میں دو یا دو سے زائد مختلف چیزوں کی آپس میں عدم مطابقت یا ٹکراؤ کو تضاد یا متضاد اشیاء کہا جاتا ہے۔ اشیاء میں تضاد کا قانون وحدت اضداد کا قانون مادی جدلیات کا بنیادی قانون ہے۔

انہوں نے کہا کہ مختصراً جدلیات افکار و خیالات کے منطقی بنیادوں پر سچائی دریافت کرنے کا فن بحث و مباحثہ کے ذریعے سچائی کی چان بین اور سراغ لگانا، جدید فلسفے کی بنیاد پر تنقید مابعدالطبیات مابعد الطبی قضیوں کے بحث، لینن کے نزدیک جدلیات دراصل اس تضاد کا مطالعہ ہے جو خود اشیاء کی ماہیت میں موجود ہوتا ہے پھر لینن نے مختلف وقت میں اپنی مختلف آراء میں اکثر اس قانون کو جدلیات کی ماہیت قرار دیا ہے۔ انہوں نے اسے جدلیات کا مغز بھی کہا ہے بہرحال جدلیات کی قانون کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں مختلف النوع سوالات،متعدد فلسفیانہ مسائل کا ذکر کرنا پڑتا ہے۔

بشیر زیب بلوچ نے کہا کہ جدلیات کے فلسفے میں یونانی فلا سفر ہیرا کلائٹیس کے بعد دوسرا معتبر نام جرمن فلاسفر ہیگل کا ہے جس نے جدلیات کے قوانین تفصیل کے ساتھ واضح کئے جس میں:
1۔کمیت سے کیفیت میں تبدیلی کا اور اس کے برعکس قانون۔
2۔ اضداد کے اجماع اور جدوجہد کا قانون
3 نفی کی نفی کا قانون

جدلیات کو خیال پرستی کی مقید سے آزاد کرانے کے بعد اشتراکی فکر کے پیغمبر مفکر و فلسفی کارل مارکس نے پہلی بار اس بات کی نشاندہی کی کہ جدلیات درست اور حقیقی ہونے کے باوجود خیا ل پرستی کا شکار ہے چونکہ ہیگل کے ہاں جدلیات کے واضح تصور کے باوجود مادہ کی اولین حیثیت واضح نہیں تھی اور ہیگل کی جدلیات سر کے بل کھڑی تھیں جبکہ کارل مارکس نے جدلیات کے ساتھ مادہ کی اولین اہمیت وحیثیت کو جڑ کر جدلیات کو سید ھا کر کے سر کی بجائے پاؤں پرکھڑا کر دیا ہے۔ مختصراً جدلیات، فطرت،انسانی،معاشرے اور فکر کی حرکت تضاد تبدیلی اور ترقی کی عمومی اصولوں کی سائنس ہے۔

انہوں نے کہا کہ کارل مارکس کے دوست فریڈ رک اینگلز نے بھی جدلیات کو مزید وسعت دیکر فطرت کے معاملات پر اس کا اطلاق کیا۔ اینگلز نے دن رات اور مختلف موسموں کی مثالیں دیکر واضح کیا کہ فطرت میں تغیر وتبدل کا عمل بھی جدلیات کے قوانین کے مطابق ہے گوکہ آج ہمارا موضوع جدلیات یا مادی جدلیات نہیں جس پر ہم مفصل طریقے سے بحث کریں، مختصر جدلیات کے بارے میں اظہار خیال اس لیے مناسب سمجھا کہ اشیاء کی تضاد کو اگر مارکسی جدلیات کی قانون کے تحت ان کا تخصیص نہیں کیا گیا تو پھر تضادات اپنی اصل ماہیت کو کھوکر صحیح طریقے سے سمجھنے کے بجائے صرف سطحیت تک سمجھنے تک محدود ہوگا۔

تضاد کے تخصیص اور جدلیات کے استعمال اور مطالعہ کے بارے میں چیئرمین ماوزئے تنگ زور دیتے ہوئے کہتا ہے کہ معروضی مظاہر کے مطالعے میں جدلیات کے استعمال کے سوال پر مارکس اور اینگلس اور اسی طرح لینن اور اسٹالن نے بھی ہمیشہ لوگوں کو اس بات پر تلقین کی ہے کہ وہ کسی طور بھی موضوعیت پسند اور خود رائے نہ بنیں بلکہ ان مظاہر کی حقیقی معروضی حرکت کے ٹھوس حالات سے ان کے ٹھوس تضادات، ہر تضاد کے ہر پہلو کی ٹھوس حالات سے ان کے ٹھوس تضادات،ہر تضاد کے ہر پہلو کی ٹھوس حیثیت اور تضادات کے ٹھوس باہمی تعلقات کا پتہ چلائیں۔

ماوزئے تنگ مزید کہتا ہے کہ اکثر ہمارے عقیدہ پرست مطالعہ کرتے وقت یہ رویہ اختیار نہیں کرتے جس کی وجہ سے وہ کبھی کسی صحیح نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے، ہمیں ان کی ناکامی سے تنبیہ حاصل کرنی چاہیے اور یہ رویہ سیکھنا چاہیے جو مطالعے کا واحد صحیح رویہ ہے۔

بشیر زیب بلوچ نے سوالات کیے کہ تضاد اور بلوچ قومی تضاد کیا ہے؟ بلوچ قوم میں بلوچ سماج اس وقت کون کون سے اور کہاں تضاد موجود ہے؟ اس وقت حقیقی اور غیر حقیقی تضادات کیا ہے؟ بنیادی، سطحی، مصنوعی، ثانوی اور عارضی تضاد کیا ہے؟

انہوں نے کہا کہ اینگلس کہتا ہے حرکت بذات خود ایک تضاد ہے، کامریڈ لینن کے نزدیک وحدت اضداد یا تضاد کے قانون کی تعریف؛ یہ فطرت (جس میں ذہن اور سماج بھی شامل ہیں) کے تمام مظاہر اور اعمال میں متضاد باہمی نقیض مخالفت رجحانات کی پہچان اور دریافت ہے۔ چیئرمین ماؤ کے نزدیک تضاد تمام اعمال میں موجود ہوتا ہے اور تمام اعمال میں شروع سے آخر تک جاری و ساری رہتا ہے، حرکت اشیاء، اعمال فکر یہ تمام تضادات ہیں۔ تضاد سے انکار کرنے کا مطلب ہر چیز سے انکار کرنا ہے۔

تو العرض آج اس موضوع کو چھیڑنے کا اہم مقصد یہ ہے،اگر میں غلط نہ ہوں تو باقی بلوچ عوام کو ایک طرف رکھ کر اکثر تقلیدی پرستانہ بلوچ جہدکار ہمیشہ آنکھیں اور کانوں کو بند کرکے سنی سنائی باتوں، اصطلاحات اور نعروں کو سامنے رکھ کر ان کے پیچھے اس طرح بھاگتے ہیں جس طرح کسی کو کہا جائے کہ کتا آپ کے کان کو لے گیا تو وہ کان کو نہیں دیکھتا بلکہ کتے کے پیچھے بھاگنا شروع کردیتا ہے بالکل اسی طرح بلوچ سماج تضاد یا تضادات کے حوالے سے بلوچ قوم خصوصاََ بلوچ جہدکاروں میں مختلف آراء ہمیشہ پائے جاتے ہیں۔

بشیر زیب نے بلوچ سماج میں تضادات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بلوچ سماج انتہائی مختلف اور پیچیدہ سماج ہے، مختلف تضادات مختلف شکلوں میں موجود ہیں۔کئی جگہوں پر مارکسی جدلیات سے بلوچ سماج کی تخصیص و مطالعہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کچھ اخذ کرنے میں مارکسی جدلیات بھی بے بس ہوتا ہے۔ تو پھر میرے خیال میں انتہائی آسان لفظوں اور سنی سنائی خیالات کے توسط سے بلوچ سماج کی تضادات پر فیصلہ کرنا درست نہیں ہوگا البتہ رائے قائم کرنا ہر ایک کا بنیادی حق ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فرض کریں اگر بلوچ قبائلی سماج ہے لیکن مکران میں قبائلیت کا تصور ہی نہیں ہے تو کیا مکران کے بلوچ، بلوچ سماج کا حصہ نہیں ہے؟ بلوچ مذہبی سماج ہے لیکن مشاہدہ اور تجربے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بلوچ قوم مذہبی روایات سے زیادہ اپنی بلوچی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔تو کیسے پھر بلوچ مذہبی سماج ہے؟ بلوچ ایک قوم ہے بالکل سہی پھر قبائلیت کو بطور پہچان و شناخت کے طور پر فخریہ پیش کرنا!، کیا خود قومیت خوبصورت پہچان اور شناخت نہیں ہوتا ہے؟ پھر قباہلیت کو بطور پہچان اور شناخت کی کیا ضرورت؟

انہوں نے کہا کہ جب بلوچ خود علمی و منطقی تعریف کی بنیادپر ایک قوم ہے اس کی اپنی ہزاروں سالوں پر محیط تاریخی اور جغرافیائی حیثیت و پہچان ہے لیکن اس کے باوجود قباہلیت پر فخر کرنا کیا معنی رکھتا؟
ایک اور بات بلوچ قوم اوربلوچ قومی رسم رواج و روایات کو قبائلی روایات دوسرا بلوچ قوم کے مختلف زبانوں براہوئی، جدگالی، سرائیکی اور کھیترانی زبانوں کو الگ الگ قوم تصور کرنا یا بلوچ سماج کو علاقائی تقسیم کی بنیاد پر مکرانی، رخشانی، سلیمانی، سراوانی، جھالاوانی تصور کرنا پھر کیوں؟ کیا یہ تضاد نہیں ہے؟
اب یہ دیکھنا اور سمجھنا کہ جدلیاتی فلسفے کے تحت یہ تضادات غیر اصل، ثانوی، مصنوعی پیدا کردہ اور سطحی ہیں یا پھر اس وقت بلوچ سماج کے اصل تضاد ہیں؟

انہوں نے حوالہ دہتے ہوئے کہا اصل تضاد اور تضاد کے اصل پہلو پر بحث کرتے ہوئے چیئرمین ماوزے تنگ کہتا ہے کہ تضاد کی تخصیص کے مسئلے میں ابھی دو نکتے ایسے ہیں جن کا علیحدہ علیحدہ تجزیہ کرنا ضروری ہے، یہ نکتے ہیں اصل تضاد اور تضاد کا اصل پہلو۔ کسی پیچیدہ شے کی نشوونما کے عمل میں بہت سے تضادات پائے جاتے ہیں ان میں سے ایک لازمی طور پر اصل تضاد ہوتا ہے جس کا وجود اور نشوونما دوسرے تضادات کے وجود اور نشوونما کو متعین یا متاثر کرتی ہے۔ مثال کے طور پر سرمایہ دارانہ سماج میں دو متضاد قوتیں پرولتاریہ اور بورژواطبقہ کے درمیان تضاد کسان ادنیٰ بورژوا طبقے اور بورژوا طبقے کے درمیان تضاد پرولتاریہ اور کسان ادنیٰ بورژوا طبقے کے درمیان تضاد غیر اجارہ دار سرمایہ داروں اور اجارہ دار سرمایہ داروں کے درمیان تضاد، بورژوا جمہوریت اور بورژوا فسطاہیت کے درمیان تضاد، سرمایہ دار ممالک کے درمیان تضاد اور سامراج اور نوآبادیات کے درمیان تضاد یہ سب کے سب اصل تضاد سے متعین یا متاثر ہوتے ہیں تو بلوچ سماج کو تفریق و تقسیم کی سازشی منصوبے کے تحت، لاشعوری و لاعلمی یا پھر حسب ضرورت تحریکی تقاضات کے بنیاد پر یا کس بنیاد پرتقسیم کردیا گیا ہے؟تو میرے نظر میں زیادہ تر تضادات میں غیروں کی سازش کی عوامل زیادہ کار فرما ہیں۔ مختلف تضادات آج بھی موجود ہیں کچھ حقیقی اور کچھ مصنوعی ہیں۔ مثال کے طور پر علاقائی تضاد، قبائلی تضاد، زبانوں کی تضاد، پرانے اور نئے یعنی فرسودہ اور ترقی یافتہ روایتی اور غیرروایتی سوچ،انقلابی اور غیر انقلابی سوچ اور رویوں کی تضاد،نظریاتی وغیر نظریاتی تضاد اور مذہبی تضاد وغیرہ وغیرہ

انہوں نے کہا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت بلوچ سماج میں اصل تضاد کیا ہے اور اس کا حل و خاتمہ کس سوچ اور نظریہ کی بنیاد پر ہوسکتا ہے؟ بقول چیئرمین ماوزے تنگ کے کہ کیفیت کے اعتبار سے مختلف تضادات صرف کیفیت کے اعتبار سے مختلف طریقوں سے حل کئے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پرولتاریہ اور بورژوا طبقے کے درمیان سوشلسٹ انقلاب کے طریقے سے حل کیا جاتا ہے، عوام الناس اور جاگیردارانہ نظام کے درمیان تضاد جمہوری انقلاب کے طریقے سے حل کیا جاتا ہے، نوآبادیات اور سامراج کے درمیان تضاد جمہوری انقلاب کے طریقے سے حل کیا جاتا ہے اور نوآبادیات اور سامراج کے درمیان تضاد قومی انقلابی جنگ کے طریقے سے حل کیا جاتا ہے۔

بشیر زیب بلوچ نے کہا کہ کیا بلوچ قوم اس وقت سامراجی اور نوآبادیاتی قوتوں کی شکار نہیں ہے؟ کیا بلوچ قوم کا اصل تضاد سامراج اور نوآبادیاتی قوتوں کے ساتھ نہیں ہے؟ پھر کیا اس کا حل بلوچ قومی و انقلابی اور قومی آزادی کی جنگ میں نہیں ہے؟ اور باقی ثانوی، غیر اصل، مصنوعی، سطحی تضاد، ضرور بلوچ سماج میں موجود تھے اور کسی حد تک موجود ہیں لیکن اس وقت اصل تضاد (بلوچ قوم اور پاکستان کے درمیان) حاکم و محکوم، قابض و مقبوضہ، ظالم و مظلوم،ڈاکو چوراور مالک کے درمیان تضاد ہے۔ اس تضاد کے حل و خاتمہ بلوچ نیشنلزم کی فکرو نظریہ کی بنیاد پر بلوچ قومی آزادی کی جہدوجہد و جنگ سے ممکن ہے اس کے علاوہ اور کچھ بھی نظریہ و تصور سود مند ثابت نہیں ہوگا۔ ضرور بلوچ سماج میں کم یا ذیادہ سطح پر کچھ ثانوی، مصنوعی، غیر اصل، سطحی تضاد ختم ہوچکے ہیں یا کمزور ہوچکے ہیں مگر کچھ نئے تضاد بھی ابھر کر سامنے آچکے ہیں یعنی پھر اینگلس کی وہی بات آتی ہے حرکت بذات خود تضاد ہے اس بات سے انکار کرنا بھی ممکن نہیں ہے لیکن جب اصل اور بنیادی تضاد کی تخصیصی شعور ہوگا، جدلیات کی بنیاد پر بلوچ سماج کے تضادات کا مطالعہ ہوگا تو باقی تضاد آسانی کے ساتھ سمجھ میں آئیں گے۔

چیئرمین ماوزے تنگ کے نزدیک اگر کسی عمل میں متعدد تضادات ہوں ان میں سے ایک تضاد لازمی طور پر اصل تضاد ہوتا ہے جو رہنماء اور فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے جبکہ دوسرے تضادات کی حیثیت ثانوی اور ذیلی ہوتی ہے چنانچہ کسی ایسے پیچیدہ عمل کا جدلیاتی سطح پر مطالعہ کرتے وقت جس میں دو یا دو سے ذیادہ تضادات ہوں ہمیں اس کا اصل تضاد معلوم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے ایک مرتبہ اصل تضاد گرفت میں آجائے تو تمام مسائل آسانی سے حل ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ سماج میں اس وقت اصل تضاد (بلوچ قوم اور پاکستان قابض) کے ساتھ اور باقی ثانوی عارضی مصنوعی سطحی تضادات میں تخصیص کرنا ضروری ہے اور اصل تضاد پر توجہ اور اس کے حل پر توجہ دینے اور دلچسپی لینے کی ضرورت ہیں لہٰذا اصل تضاد کی حل اور خاتمہ صرف بلوچ نیشنلزم کی نظریہ کی بنیاد پر چلنے والی قومی آزادی کی سیاسی اور مزاحمتی قومی جنگ میں پوشیدہ ہے۔ جب بات اور اتفاق قومی سیاسی و مزاحمتی جنگ کی ہوتی ہے تو اس میں ہر وہ بلوچ جو بلاواسطہ یا بلواسطہ بلوچ دشمن قوتوں کے ساتھ بلوچ وسائل کی لوٹ کھسوٹ، استحصال، نسل کشی، ظلم و جبر، بربریت میں شامل نہیں ہے تو وہ بلا تفریق جنس بلوچ قومی آزادی کی جہدوجہد و جنگ کا حصہ اور قابل قبول ہوسکتا ہے چاہے وہ عام بلوچ ہو مرد عورت بزگر، شوان دہکان، مذہبی، قبائلی غیر قباہلی اورسیاسی جو بھی ہو بلوچ قومی آزادی کی سوچ و فکر اور قومی جنگ کے ساتھ مکمل اتفاق اور بشرطیکہ دشمن سے بلا واسط یا بلواسطہ مکمل لاتعلق ہو وہ بلوچ قومی آزادی کی جہدوجہد و جنگ کا حصہ اور قابل قبول ہونا چاہیے اور ایسا بھی نہیں کہ بلوچ سماج، بلوچ قوم اور بلوچ قومی آزادی کی جنگ میں اس وقت ثانوی سطح کے تضادات موجود نہیں ہے،موجود ضرور ہیں مثلاً فرسودہ و رجعتی سوچ، قباہلی نیم قباہلی وغیر قباہلی، غیرانقلابی سوچ اور رویے، پھر غیرانقلابی سوچ میں بھی ایسے مختلف قسم کے مختلف و متعدد تضاد ات پائے جاتے ہیں لیکن پھر بھی اصل تضاد (بلوچ قوم اور پاکستان ریاست کے ساتھ) کا حل و خاتمہ مکمل بلوچ قومی و انقلابی جہدوجہد اور قومی جنگ پر منحصر ہے اور باقی متعدد تضادات پر غیر سطحی اندازمیں جدلیاتی فلسفہ کی بنیادوں پر ٹھوس تحقیق و تجزیہ اور مطالعہ کرکے علم و شعور ذہنی و سیاسی تعلیم و تربیت کے ساتھ قومی جنگ کی شدت پر زیادہ توجہ ہونا وقت
کا اہم اور بنیادی تقاضہ ہے باقی تضاد خود کمزور یا ختم ہونگے۔

بشیر زیب بلوچ نے کہا کہ میں دوبارہ واضح کرتا ہوں اس وقت بلوچ قوم کا اصل تضاد بلوچ قوم اور پاکستان ریاست کے ساتھ ان تمام قوتوں کے ساتھ ہیں جو بلوچستان پر مزید قدم جمانے کی خاطر پاکستان کے ساتھ ملکر بلوچ قوم کو صفہ ہستی سے مٹانے کاارادہ رکھتے ہیں۔ تو اصل اور بنیادی تضاد پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کرکے قومی جہدوجہد کو قومی طاقت کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا کہ بلوچ ایک زندہ قوم کی حیثیت سے اپنی سرزمین اور وسائل کو آسانی کے ساتھ کسی کے بھی حوالے نہیں کرتا ہے یہی ہر بلوچ کا نظریہ اور سوچ کا محور ہونا چاہیے۔