بلوچستان میں نام نہاد تعلیمی ایمرجنسی سے کوئی تبدیلی نہیں آئی – بی ایس اے سی

161

حکومت بلوچستان کی تعلیمی ایکٹ 2018 سے ملازمین اور اساتذہ کے بنیادی حقوق غصب ہونگے۔ بلوچ اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے حکومتی تعلیمی ایکٹ 2018 پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بلوچستان شعبہ تعلیم کو لازمی سروس قرار دینے سے متعلق تعلیمی ایکٹ 2018 متعارف کرا رہی ہے اس ایکٹ کے مطابق تمام سرکاری اساتذہ پر کسی قسم کے احتجاج ہڑتال یا ان میں شامل ہونے پر پابندی ہو گی اس ایکٹ کی خلاف ورزی کی صورت میں اساتذہ کو ایک سال قید اور پانچ لاکھ تک جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔

ترجمان نے کہاکہ گزشتہ 6 سالوں سے بلوچستان میں نام نہاد تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی گئی لیکن اس تعلیمی ایمرجنسی کے باوجود تعلیم کے میدان میں کو ئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی ہے سیکرٹری تعلیم کے دعوؤں کے مطابق حکومت کے زیر سرپرستی چلنے والی سرکاری اسکولوں میں سے اس وقت 1800 پرائمری،مڈل اور ہائی اسکول غیر فعال ہے۔2200 اسکولوں کی چھتیں ہی نہیں ہے پانچ ہزار اسکول ایسے ہیں جن میں صرف ایک ٹیچر موجود ہے اور دس لاکھ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں اور تمام اسکول جدید سہولیات پینے کے صاف سے محروم ہیں۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومتی دعوے حقائق کے برعکس ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ تعلیم کی ابتر صورتحال ہے اس لئے حکومت تعلیمی ایمرجنسی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس ایکٹ میں ایسے اقدامت کریں جس سے پورا نظام تعلیم بہتر ہو جائے نہ کہ صرف ملازمین اور اساتذہ کی تذلیل کریں۔

ترجمان نے آخر میں کہاکہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے ملازمین کو سہولت دینا اور خاص کر اساتذہ سماجی حوالے سے انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں ایسے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد سے زیادتی ناقابل برداشت ہے تعلیم کے شعبے میں تعلیمی ادارے،طلباء و طالبات سمیت اساتذہ کو ہر قسم کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے تاکہ انہیں کسی قسم کی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے اور وہ بہتر انداز میں اپنے فرائض سر انجام دے سکیں۔