استاد – عائشہ اسلم بلوچ

599

استاد
تحریر۔ عائشہ اسلم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

بچپن سے لے کر آج تک استاد سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا، وہ ایک مہربان والد ہونے کے ساتھ ساتھ میرا دوست اور استاد بھی تھے۔ میں خود کو بہت خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ میں ان کی بیٹی ہوں، ہمارے باپ بیٹی کا رشتہ بہت زیاد خوبصورت تھا۔ ایک بیٹی کو اس کا والد کتنا عزیز ہوتا ہے، یہ بات سب سمجھ سکتے ہیں لیکن ہمارا رشتہ بہت ہی گہرا اور خوبصورت تھا۔ خونی رشتے کے ساتھ ساتھ وہ میرے رہنما بھی تھے، ان کے سوچ و کردار کو بیان کرنا مشکل ہے، وہ ہمیشہ ہماری سیاسی تربیت کرتے، ہمیشہ ان کی سوچ ان کی باتیں صرف اور صرف قوم کے لیئے ہوتی تھیں۔

انہوں نے اپنی زندگی قوم پر قربان کر دی، اپنے جگر کے ٹکڑے تک کو قربان کردیا، میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ کتنا عظیم شخص ہے میرا والد، پھر میں مسکرا کر کہتی، شاید وہ میرے والد ہیں اس لیئے مجھے اتنے عزیز ہیں، لیکن ایسا نہیں تھا وہ صرف مجھے نہیں بلکہ پوری بلوچ قوم کو اسی طرح عزیز تھے۔

آج ہم ایک مہربان والد، ایک استاد اور ایک دوست سے محروم ہوگئے لیکن ان کی سوچ و تربیت اور باتیں آج بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ آج ہر ایک نوجوان میں ان کی سوچ زندہ ہے۔ آج ہم میں ان کی سوچ زندہ ہے، وہ اپنے وطن کے ساتھ انتہائی مخلص تھے۔ ثابت قدم تھے، وہ اپنے دوستوں اور قومی لوگوں سے بے انتہا محبت کرتے، ان کی سوچ پہلے قوم کے لیئے تھی، پھر ہمارے لیئے اور ہمیشہ ہمیں بھی یہی درس دیتا تھا کہ قوم ہمارے لیئے سب کچھ ہے، چاہیے کچھ بھی ہوجائے ہمیں لڑنا ہے، قوم پر فدا ہونا ہے، اپنے غلام قوم کو ہر حال میں آزاد کرنا ہے۔

آج وہ ہمارے بیچ نہیں لیکن ہمیں اپنے فرائض کو سمجھ کر آگے بڑھنا ہے، ان کے سوچ کو آگے لے جانا ہے، وہ ہم سے جو امید رکھتے تھا، ان امیدوں پر پورا اترنا ہے۔

فرید جان، اختر جان، کریم جان، سردرو جان اور صادق جان ان سب نے اپنا قومی فرض ادا کیا، یہ سب استاد کے کارواں میں شامل تھے، ان کی مخلصی کی مثال نہیں ملتی۔ آخر دم تک اپنا فرض نبھاکر جام شہادت نوش کی اور ثابت قدم رہے۔ ان کے ساتھ نظریاتی رشتہ بہت مظبوط تھا۔

آج ان کے جانے کا دکھ بہت ہے لیکن وہ ایک مقصد کے لیئے قربان ہوئے ہیں اور تاریخ انہیں ہمیشہ سنہرے لفظوں میں یاد کرے گی۔

مجھے ابھی تک یقین نہیں ہورہا ہے کہ ایسا واقعہ پیش آیا ہے، میں ہمیشہ یہی دعا کرتی کے مجھے استاد کا درد دیکھنے کو نہ ملے، یہ واقعہ کسی بھی انسان کو توڑدینے کیلئے کافی تھا لیکن میری لمہ جان نے جو حوصلہ مجھے دیا، جو ہمت بخشی اس نے ہمیں ایک اٹوٹ دیوار بنادیا۔ پہلے میں خود حیران تھی کہ اس واقعے کے بعد میں لمہ جان کو کیسے سنبھالوں گی لیکن انہوں نہ ہمیں جس طرح سے سنبھالا آفرین ہے ان پر۔

استاد کی ہمیشہ یہی خواہش تھی کہ انہیں شہادت نصیب ہو۔ شہادت سے پانچ منٹ قبل میں استاد کے ساتھ تھی، آخری بار ان سے بات کی مزاق کیا اور انہوں نہ کہا میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں اور وہ چلے گئے۔ میں قربان اپنے مہربان والد پر، سرخ سلام شہیدوں کو۔