شہداٸے وطن ۔ خالد شریف

525

شہداٸے وطن

تحریر۔ خالد شریف

دی بلوچستان پوسٹ

سرخ سلام پیش کرتا ہوں ان شہداٸے وطن کو جنہوں نے اپنے مستقبل کو اور دنیاوی تمام خواہشات کو ہمارے لیٸے، اس سرزمین کیلٸے اور مہذب قومیت کو دوام دینے کیلٸے قربان کیا۔ شہداءِ وطن وہ شخصیات ہیں، جن کو اپنی ذات سے زیادہ اپنی سرزمین، اپنے وطن کے فرزندعزیز تھے۔ انہی کا جذبہ قربانی ہے، جو سامراجی اسٹیبلشمنٹ کو باور کراچکی ہے کہ وہ ہار چکا ہے۔ اب اسکے سامراجی پروپگینڈوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلٸے ریزہ ریزہ ہونے سے کوٸی نہیں بچا سکتا۔

وہ بھی عام انسان تھے، جو اپنی نفسیاتی خواہشات سے لے کر رشتوں ناطوں تک کو بھلا کر سرزمین اور قوم کی بقاء پر قربان ہوٸے۔ انکی بےلوث قربانیوں کو الفاظ کا لباس پہنا کر پیش کرنا کافی نہیں سمجھ سکتا۔ شہداء کی عظمت اور انکے لہو کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ انکے اس فکری مضبوطی اور محب الوطنی کو صرف احساس کے سانچوں سے پرویا جاسکتا ہے، انکی قربانیوں کو صرف اپنی ثابت قدمی کے جذبے سے ہی مہتاب نما و فنا ہوکر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ دنیا میں بہت سے قسم کے لوگ بستے ہیں جو اپنے خاندان اور گھر بار کی خوشحالی کی بھاگ دوڑ میں ہر طرح کے مشکلات اور غیر شعوری اقدام سے دریغ نہیں کرتے لیکن کچھ ایسے عظیم ہستیاں بھی ہوتی ہیں جو انفرادی، گروہی، خاندانی اور استعماری مفاد سے بھی آگے یعنی اجتماعی مفاد، قومی مفاد اور نسل کی خوشحالی، ایک آزاد فضا اور سرزمین کا حق ادا کرنے کیلٸے اپنی ذاتیات اور مادی زندگی کو قربان کرتے ہیں۔

وہ ہوتے ہیں “شہداٸے قوم” جو صرف جسمانی طور پر جدا ہوکر ہمیشہ ہمیشہ کی خاطر اپنے قوم اور نسل میں نٸی روح پھونک دیتے ہیں، انکی ہی قربانیوں کا صلا ہے جو ابھی تک ہم سر اٹھا کر مہذب قومیت کا نعرہ لگاتے ہیں ورنہ ایسی بڑی طاقتوں کا منہ توڑ جواب دینا مجھ اور تم جیسے خودغرضوں کیلٸے ممکن نہ تھا۔ انہی کی روحانیت کا جنون ہے جو بلوچ قوم کو سرشار کیٸے ہوٸی ہے۔ یہ انہی کی مسخ شدہ لاشوں کی خوشبو ہے جو اس سرزمین کو مہکا رہی ہے۔ انہی کی لہو کا سرچشمہ ہے کہ سرزمین خون کی ہولی میں سرسبز شاداب ہے۔ ورنہ ان حیوانوں کے ہاتھ اس سرزمین کی خوبصورتی داغ داغ ہوجاتی۔ یہی شہداء ہیں، جنہوں نے ہمیں اپنی عظمت سے وارثیت کا شرف بخشا ہے۔

اگر آج اس جدوجہد کو ایک اہم موڑ ملی ہے تو یہ انہی شہداء کی عظیم قربانیوں کے بدولت ہے۔ اس دھرتی کے وارثوں کو ہر رنگ روپ، ہر جگہ محسوس کیا جاسکتا ہے۔ یہی عظیم ہستیاں تھیں جو توتک کو اپنے لہو کے رنگ سے آباد کرگٸے۔ یہ سرزمین کے وہ چراغ ہیں، جو بجھ کر بھی مہتابی دے رہے ہیں، وطن کی کوکھ کو اپنی لہو سے آباد کررہے ہیں۔ یہی ہیں جو خشک صحرا کو سیراب کرتے ہیں، اعلان کرتے ہیں ابدی عبادت کا فرض ادا کرتے ہیں، جسموں کو ریزہ ریزہ کر کے فنا ہو کر امرت پاتے یہی ہیں، جنکی خون کی بو سے بے جان جسم میں روح پڑتی ہے، یہی ہیں زندگی کو موت پر ترجیح دیتے ہیں، یہی ہیں خواہشوں کو چھوڑ گلزمین پر مٹنے والے۔ یہی ہیں وہ سرزمین پر کٹنے والے۔

جو جھکے نہیں ہیں بس کٹے ہیں، لہو کے بہاٶ کو تیز کرکے ہمیشہ سکون پا کر قوم کو بیدار کرنے والے۔ ان کی سامریت ہے دلوں پر جو سرزمین کے جانبازوں کا ہمت بنا ہوا ہے، انہی کی فریاد بھری قربانیوں کی لزت ہے، جو ہمیں جھکنے سے روکے ہوٸے ہے۔ اس سرزمین کے سپوت ہونے کے ناتے اور بلوچ سرزمین کی مہر و محبت میں جو ہمارے شہداہ کی زمہ داری تھی وہ پوری کرگٸے۔

اب انکی قربانیوں کو ابدی بنانے اور انکی اس جدوجہد کو آگے لیجانا ہمارے کندھوں کی ذمہ داری ہے، جو شہداء نے سر کٹا کے پورا کردیا اور ہمارے ذمے سونپی۔ اس سلسلہ قربانی کو آزادی کی صبح تک برقرار رکھنے کیلٸے بلوچ قوم کو کافی عظیم قربانیاں اور دینی ہیں۔ کیونکہ سرزمین کے جو سپوت شہید ہوٸے ہیں انکے مشن کو تکمیل تک پہنچانے کیلٸے خاصی قربانیوں کی اشد ضرورت ہے، جو وقت اور قومی قوت کیلٸے نمایاں اہمیت رکھتی ہیں۔ شہداء کی قربانیوں اور جانوں کا نذرانہ فلسفہ ِٕ انسانیت کا درس دیتی ہے۔ قومی شہداء نے صرف جانوں کا ہی قربانی نہیں دیا بلکہ اپنے جنونیت کو اس سرزمین میں اپنے لہو سے سمویا ہے۔

آج ہر بلوچ فرزند کا سر فخر سے سربلند ہے، تو انہی قومی شہداء کی جانوں کے نذرانے کے صدقے ہے۔ جو جابر کے پرجبر جفاکاریوں پر پرمسکانی سے موت کو امریّت سے فتح یاب کر تے ہیں ۔ شہید کا درجہ پانا وہ بھی اپنی قوم و راج کی ایک آزاد فضا کی خاطر تو موت پر زندگی کا نایاب تحفہ ہے۔ شہدا ٕ سے ہی غلامانہ سرزمین کو سکون کی فضا میسر ہوتی ہے۔

اپنی سرزمین پر مر مٹنے کی جنونیت ہی ہے، جو فرزندان وطن کو بارود بھری موت پر مسکراہٹ کا حوصلہ دیتی ہے۔ شہدإ مظلوم نہیں بلکہ ظالم گداز ہوتے ہیں، جو ظلم کو موت کی سانسوں سے فتح یاب کرتے ہیں۔

شہدإ کی قربانیوں کی لاج رکھ کر اس سرزمین کے بچے ، بوڑھے، ماں، بیٹیاں، جابر کے سامنے چٹان کی مانند رکاوٹ بن کر اپنے آپکو ظالم ظاہر کرنے کے بجاٸے ثابت قدمی سے مقابل ہونا چاہیئے۔ نہ کہ شہدإ کی تصاویر کے سامنے بس دو قطرہ آنسو بہا کر پھر ایک سال تک انجان ہونا، تو انسانیت کے ساتھ ساتھ شہداء کی قربانیوں سے بھی ناانصافی ہے۔ اگر ہمیں اس سرزمین کے حقیقی وارث شہداء کے مشن و منزلِ مقصود تک کو پہنچانا ہے، تو وہی فکری مضبوطی جو مجید سے لیکر ریحان کو فداٸین بناتا ہے، اس فکری جذبے پر جو ہماری نسل در نسل کی تاریکی سے اجالوں کی سفر ہے، اسی طرح جنون سے برسر عمل ہونا ہے۔

شہداء کی جو قربانیوں سے پیش کردہ فکر ہے، اسی سے لیس ہوکر ہمیں اپنے ذاتیات سے نکل کر انسانیت اور قومی محبت کا صحیح اندازہ ہوگا کہ جو سرزمین کی بقاء کی خاطر مرتےہیں وہ کبھی بھی گمنام نہیں ہوتے، بلکہ وہ اپنی سزمین کی گود میں ابدی سکون پاتے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔