شمع ریئس – بیرگیر بلوچ

196

شمع ریئس 

بیرگیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

زندگی کے رنگ منچ پے ایک داو کمال کا رہا تھا کہ زندگی کے حقیقی رنگوں سے بیگانہ رہو تو زندگی کی تلخیوں سے بچ کر چل پاؤ گے، یہ داو کسی حد تک کامیاب بھی رہا، دوران سفر بس اتنا ہی سوچا تھا کہ مجھے سفر در سفر چلنا ہے، ہر شے سے انجان، ہر شے سے پہلو تہی کرکے بس اپنے منزل کی جانب چلو، رستے میں دکھ، تکلیف، مشکلات کو مات دینے کا یہی طریقہ رہا۔ پھر ساتھ چلتے ساتھیوں کی جدائی نے جو غم میسر کیئے ان سے نکلنے کے لیے بھی یہی سوچا کرتا رہا کے درد کو دوا بنا کر اپنے حوصلوں کو نوش کرا دو تاکہ حوصلے توانا ہوکر رستوں کے تلخیوں کو سہہ کر محو سفر جاری رہیں، میں یونہی گذارتا رہا اپنے من عین مطابق زندگی کو، میں یونہی گزار بھی لیتا اسی غلطی کے ساتھ کے زندگی کے حقیقت سے آشنائی تمہیں توڑ دیگی تمہیں کمزور کر دیگا تمہیں مایوس کر دیگا۔

مگر ایسا قطعاً نہیں تھا، زندگی جینے کا حقیقی پہلو اسکو جاننے، سمجھنے اور اپنانے میں ہے. یہ حقیقت آشکار ہونا ہی اصل میں زندگی کا مکمل حاصل ہے کہ میں ہوں تو کیا ہوں؟ جب تم اس سوال کو عبور کر جاؤ گے تو تمہیں اپنے یہاں ہونے کا حقیقی وجہ ملے گا اور جب تم اس وجہ کو پاؤ گے تو تم اس دنیا کے ان ہستیوں میں سما جاؤ گے جنہیں بھگت سنگھ، چہ گویرا، فیڈل کاسترو، چندر شیکھر آزاد اور رئیس بلوچ کے ناموں سے یاد رکھا جائے گا، جنہوں نے زندگی کے اصل پہلو سے آشنا ہوکر اسے اپنے مقاصد، اپنے قومی بقا و انسانیت کے آزادی کے لیے قربان کردیا۔

زندگی کے رنگ منچ پر ایک ساتھی ایسا جو اس حقیقت سے واقف ہوکر اپنے کارواں کا حصہ بن کر زندگی کو اسکے اصل ہدف پر متعین کردیا۔

سنگت رئیس عرف سنگت وسیم 1997 کو پنجگور کے علاقے میں پیدا ہوا، جو اپنے گھر کا بڑا بیٹا تھا، اسکے علاوہ اسکا ایک ہی بھائی جو اس سے چھوٹا تھا، اپنے والدین کے دو ہی بیٹے جو وطن مادر پر اس وقت ہوش سنبھالے جب ہر سمت آگ و لہو کی یلغار تھی، جہاں ہر سمت زندگی، آہ و سسکیوں سے تڑپ تڑپ کے قریب المرگ تھی، جہاں قوم، شناخت، زمین، زبان سب کچلے جا رہے تھے، جہاں زندگی اپنے حقیقی شکل سے خود بھی خوفزدہ رہتی تھی، جہاں زندگی خود ہی اپنے پھٹے پرانے چادر میں زخموں کو پیوند لگا کر منہ زمین میں دبا کر آنسو بہا رہی تھی۔

وہیں اسی دور میں رئیس اس درد، اس حقیقت سے آشنا ہوا، وہیں پہاڑوں، جھیلوں، ندیوں، میدانوں، صحراؤں کے تڑپتی لرزاتی پکار کو سن کر رئیس اس کاروان کا حصہ بن کر اپنے گھر، شہر، لوگوں کو پد پشت رکھ کر وطن کے دفاع میں دیوانہ وار چلتا رہا۔

اسی سفر کے بہت سے راہی دوران سفر ہار گئے، تھگ گئے، رُک گئے مگر رئیس چلتا رہا، وہ اپنے ہم کوپہ سنگتوں کے شہادت پر انکو کاندھا دیتا رہا، انکے ذمہ کا کام اپنے کاندھوں پر اٹھائے رئیس چلتا رہا۔

وہ کبھی تھک نہیں سکتا تھا، نہ ہی کوئی ہار کا گمان رکھتا، ٹوٹ جانے کا تو نام تک نہیں تھا کیونکہ رئیس نے زندگی کے حقیقی رنگوں کو اپنا لیا تھا، زندگی کے تلخ حقیقت کو جاننے کے بعد بھی وہ انتہائی پُرسکون رہتا رہا، زندگی کی حقیقت نے تلخی سے زیادہ اسے محبت سے آشنا کر دیا تھا، اس کے لیے زندگی کی اہمیت اور بڑھ گیا تھا، زندگی کے حقیقت کو جان کر ہی اسے ہر رشتہ، والدین، بھائی، دوست و قوم کے ہر فرد سے لگاو اور زیادہ بڑھ گیا تھا، وہی خوش مزاجی وہی مسکراتے لب وہی دیوان لوٹ لینے کی ادا وہی ہنستے ہوئے اپنی بات پوری کرنا۔

اسکے دیوان میں ہنسی پہلو میں اور غم وادیوں کے چٹانوں سے اوپر بسیرہ کیا کرتے تھے، جس قدر اسکا دیوان محبت بھرا تھا اسی قدر وطن سے اسکا محبت اسکے کام، عمل، خواری میں بخوبی پنپتا رہتا تھا۔ ہر مشکل، ہر خواری، ہر سختی کو مسکرا کر عبور کرنے والا رئیس اکیس سال کے عمر میں اس فیصلے تک پہنچ گیا کہ اب اس سے آگے فدائین کا رستہ ہی اسکے قوم و زمین کے دفاع کا آخری رستہ ہے۔

شہید مجید کے کارواں کا ساتھی شہید ریحان کا ہمگام، سنگت رئیس اپنے تیاری کے مراحل میں اپنے زندگی سے ضرور مخاطب ہوا ہوگا کہ اب اس سے آگے تمہیں نامدار بنا کر قوم و وطن کا وارث بنا کر تا قیامت زندہ رکھونگا، وہیں اپنے ہدف پر نکلتے رستوں پر بھی اسے ہر لمحہ اپنے زندگی سے گفتگو کا موقع ملا ہوگا، وہ ہر بار زندگی کو اپنے مقصد کے مقدس ہونے کا درس دیتا ہوگا، اپنے باقی ساتھیوں کے محفل میں انکی طرح رہ کر انہیں یہ گمان بھی نہیں دیا ہوگا کہ وہ وطن کا فدائین ہے، ان کے دیوان میں انکے ساتھ، انکی طرح مسکرا کر اپنے ان لمحوں کا انتظار کر رہا ہوگا، ان لمحوں کا جن میں وہ اپنے استاد، اپنے رہنما کے ہاتھوں اپنے ساتھ فنا ہونے والے ساتھی ازل کے ساتھ پہاڑوں میں آخری معرکے پر جانے کی تیاریاں کر رہا ہوگا، پھر وہاں سے نکل کر سنگت رازق کے ساتھ جب ملا ہوگا، جب اسے اپنے جیسے دیوانے کی محفل میسر ہوگا، جب وہ تینوں یار ایک ساتھ ہونگے تو کس قدر زندگی کو خواب بتا کر اپنے فنا ہونے ہر فخر کر رہے ہونگے۔

وہ کر سکتا ہے، کیونکہ اس نے جان لیا تھا، سمجھ لیا تھا کہ زندگی نام ہے زندہ رہنے کا اور اسے زندہ رکھنے کا واحد رستہ اپنے قوم، اپنے لوگوں، اپنے شناخت کی خاطر مر مٹو۔

ایسے فیصلے، ایسی سوچ، ایسا عمل اور ایسی زندگی ہر کسی کے بساط میں کہاں؟ جو اپنے زندگی کو اپنے من مرضی جیئے پھر اسے اپنے من مرضی فنا کر جائے اور پھر ہمیشہ کے لیے امر رہ جائے؟ یہ تب ہی ممکن ہے جب تم رئیس سے وسیم بنو اور ان وادیوں میں عقاب مانند بسیرہ کرو، پھر اپنے دشمن پر ٹوٹ پڑو اپنے ساتھیوں کے لاشوں کو آسودہ خاک کرو پھر سفر جاری رکھو، پھر تم ہر غم دل میں دفنائے خوشی سے اپنے مقصد پر قدم بہ قدم آگے بڑھو، وہ ماں جو ہر پل یاد آرہی ہو اسکے یادوں سے مٹھاس چُنتے رہو۔

وہ بھائی جو اذیت سہہ رہا ہو، اسکے پکار سے پیغام چُنتے رہو۔ وہ ساتھی جو پہاڑوں میں ساتھ تھے، انکے حوصلوں سے رستے چٗنتے رہو، وہ منگیتر جس نے اس عمل کی وجہ سے ساتھ چھوڑا اسکے عمل سے خود کو معتبر چُنتے رہو، وہ لمحہ جب وطن مادر پکارے تو تم خود کو چُنتے رہو۔ تب جاکر فنا ہونا ہی تمہیں وسیم سے رئیس بنادے گا، پھر رئیس زمین پر گرتی بارش کی ان بوندوں کی مانند ہوگا جو بارش سے پہلے زمین کی سوندھی سوندھی خوشبو کو ہر سو بکھیر کر بارش کے خوبصورت ہونے کا درس دیتی ہے۔

وہ بوندیں یہ جان جاتے ہیں کہ سیلاب کے کارواں میں وہ خود تو نہیں ہونگے، مگر انہیں یقین ہے کہ سیلاب لانے کا اولین سبب وہی ہونگے۔

رئیس اب سے آگے ہمارے ساتھ جسمانی حوالے سے نہ بھی ہوگا، مگر وہ ہر وقت ہر اس مورچے میں موجود ہوگا جس سے گولی دشمن کی سمت چلے گی، وہ ہر اس سفر میں ہوگا جو دشمن کے ٹھکانوں کو نیست کرنے کی خاطر روان ہوگا۔ وہ ہر اس دیوان میں ہوگا جہاں دشمن کو مٹانے کے منصوبے بن رہے ہونگے، وہ ہر اس قہقہے میں ہوگا جو اسکے فدائین ساتھی آخری لمحے اپنے لبوں پر سجائے فدا ہونے کی خاطر نکلیں گے. وہ سورج کی اس پہلی کرنوں میں ہوگا جس کے بعد کوئی اندھیرا نہیں ہوگا، اسکے بعد وہ ہمیشہ آسمان پر چمکتا ستارہ بن کر اپنے لوگوں کو زندگی کے حقیقی رنگوں سے آشنا کرتا رہے گا۔