شبیر بلوچ نے کوئی جرم کیا ہے تو عدالت میں پیش کیا جائے – بہن کی فریاد

200

گذشتہ دو سال سے لاپتہ شبیر بلوچ کی بہن نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آج میرے بھائی  کو اغوا ہوئے دو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور ان دو سالوں میں ہمارے خاندان پر کیا گزری اس کا حال ایک درد مند انسان ہی سمجھ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب سے میرے بھائی شبیر بلوچ کو تربت کے علاقے گورکوپ سے سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے دوران آپریشن جبری طور پر لاپتہ کردیا۔اس دن سے لیکر آج تک میری زندگی کے بیشتر دن پریس کلبوں میں، عدالتوں میں یا انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے تنظیموں کے دفتروں میں اپنے بھائی کی عدم بازیابی کے لئے جدوجہد میں گزرے لیکن بد قسمتی سے کہنا پڑ رہی ہے کہ میرے بھائی کا آج بھی کچھ پتہ نہیں۔ ان دو سالوں میں سوائے تسلیوں کے ہمیں کچھ نہیں ملا۔

انہوں نے کہا کہ اپنے  بھائی کی بازیابی کے لئے کبھی کراچی پریس کلب کے سامنے تو کبھی کوئٹہ پریس کلب کے سامنے اعلی حکام کو اپنے بھائی کی جبری گمشدگی کی روداد سنائی، ایف آئی آر کیلئے متعلقہ پولیس اسٹیشن سے کئی بار التجا کیئے مگر ایف آئی آر کاٹنے میں انکار رہے، کورٹ میں پیٹیشن دائر کی لیکن وہاں سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہ لگا۔ اپنے بھائی کی عدم بازیابی کے لئے احتجاجی مظاہرے کئے۔ ریلیاں نکالی لیکن میرا بھائی آج بھی بازیاب نہ ہوسکا۔

سیما بلوچ نے کہا کہ میں نے ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان،ایشین ہیومین رائٹس کمیشن و ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سامنے بھی اپنے بھائی کا کیس پیش کیا۔ان اداروں نے میرے بھائی کی فوری بازیابی کا مطالبہ حکومت پاکستان کے سامنے کیا لیکن آج دو سالوں کے بعد بھی میرا بھائی بازیاب نہ ہوسکا۔

انہوں نے مزید کہا کہ شبیر بلوچ ایک طالب علم تھا جسے 4 اکتوبر 2016 کو سیکورٹی فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کردیا لیکن ہمیں آج تک یہ معلوم نہیں کہ کس جرم کی پاداش میں ہمارے بھائی کو یوں اٹھا کر لاپتہ کیا گیا۔ انسانی حقوق کے عالمی قوانین کے مطابق اگر کسی شخص سے کوئی جرم سرد زد ہوجاتا ہے تو اسے عدالتوں کے رو برو پیش کیا جاتا ہے لیکن بلوچستان میں صورتحال مختلف ہے۔یہاں سے لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کیا جاتا ہے اور کئی کئی دنوں تک تشدد کرنے کے بعد انکو ماورائے عدالت قتل کیا جاتا ہے جو انسان کو زندہ رہنے و آزادی سے اپنی زندگی گزارنے سے محروم رکھنا ہے جو انسانی حقوق کی بد ترین مثال ہے۔

لاپتہ شبیر بلوچ کی بہن نے مزید کہا کہ ہم گذشتہ دو سالوں سے مطالبہ کررہے ہیں کہ اگر میرا بھائی کسی جرم میں ملوث ہے تو اسے عدالتوں کے رو برو پیش کیا جائے اور جرم ثابت ہونے پر قانونی اصولوں کے مطابق سزا کے عمل سے گزارا جائے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن یوں حبس بے جا ء میں رکھ کر اہلخانہ کو اذیت میں مبتلا کرنا انسانیت کی توہین کے مترادف ہوگا۔
بلوچستان کے اکثریتی خاندان اس اذیت ناک مراحل سے گزر رہے ہیں۔ ایک نوجوان بھائی کے لاپتہ ہونے کا مطلب گھر کے دیگر افراد کو شدید ذہنی اذیت میں مبتلا رکھنا ہے۔

انہوں نے آخر مین دردمندانہ اپیل کرتے ہوئے کہا میں سیما بلوچ شبیر بلوچ کی بہن ایک مرتبہ پھر اپنے بھائی کی بازیابی کا مطالبہ لئے آپکے سامنے حاضر ہوئی ہو تاکہ آپ نہ صرف میرے بھائیکی بازیابی کے لئے آواز بلند کریں بلکہ بلوچستان میں انسانوں کی پر اسرار گمشدگی کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
آج سے میں اپنے بھائی کی عدم بازیابی کے لئے وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے کیمپ میں ایک ہفتے کی علامتی بھوک ہڑتال میں بیٹھنے کا اعلان اس امید میں کرتی ہو کہ آپ میری آواز بن کر اپنے ذمہ داریوں کو بھرپور انداز میں پورا کرنے کی کوشش کرینگے۔