سی پیک کو افغانستان تک وسعت دینے کی کوشش

188

چین اور پاکستان کا کہنا ہے کہ دونوں ملک زیریں ڈھانچے کی ترقی کے اپنے باہمی منصوبوں کو افغانستان تک وسعت دینے کے امکانات پر غور کر رہے ہیں۔

گذشتہ چار برسوں کے دوران چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے لیے چین نے پاکستان کو نرم شرائط پر 19 ارب ڈالر کا قرضہ اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری فراہم کی ہے، یا پھر گوادر کے حکمت عملی کی حامل بحیرہٴ عرب کے کنارے واقع بندرگاہ تک پاکستانی نقل و حمل کے نیٹ ورک، بجلی کی تنصیبات اور کی تعمیر یا سہولیات کی بہتری سے متعلق کام میں مدد دی ہے۔

پاکستانی اور چینی اہلکاروں نے بتایا ہے کہ اس مرحلے پر سی پیک کو وسعت دینے اور جغرافیائی لحاظ سے فروغ دینے، اور پاکستان کے مغربی علاقے اور خشکی سے محصور افغانستان تک پھیلانے کے کام کی جانب دھیان دیا جا رہا ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ اس سال کے آخر تک افغانستان چین اور پاکستان کے ساتھ سہ فریقی امن اور سلامتی تعاون کے مکالمے کے اگلے دور کا انعقاد کرنے والا ہے۔ مذاکرات میں سی پیک میں افغانستان کو شامل کرنے کے مجوزہ طریقہٴ کار پر غور و خوض ہوگا۔

اسلام آباد میں تعینات چینی سفیر، ژی جِنگ کے بقول،’’ضرورت اس بات کی ہے کہ سی پیک منصوبے کو ہم باہمی تعاون کا معاملہ سمجھیں، جو بہتر علاقائی تعاون یا رابطہ سازی کا دوسرا پلیٹ فارم ہے۔ پاکستان کی معاشی ترقی کا معاملہ مکمل طور پر علاقائی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کا موقع فراہم کرتا ہے‘‘۔

سی پیک گذشتہ چار سال کے دوران صدر شی جن پنگ کا ’گلوبل بیلٹ اینڈ روڈ اِنی شئیٹو‘ (بی آر آئی) ترقی کا تیز تر پراجیکٹ ہے، جس کی وجہ سے 75000 سے زائد مقامی روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں، جن کی بدولت 2017ء میں پاکستان کی قومی شرح نمو میں 5.8 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ بجلی کی تنصیبات کی تعمیرات سے ملک میں بجلی کے تباہ کُن بحران میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے کا آئندہ چند ہفتوں میں آغاز ہوجائے گا، جس کے تحت خصوصی معاشی زون تعمیر ہوں گے، تاکہ پاکستان کی صنعتی ترقی کو بڑھاوا ملے اور اسے بحال کرنے میں مدد مل سکے۔

اہلکاروں نے بتایا ہے کہ اس منصوبے میں افغانستان کی شرکت کے حوالے سے سب سے پہلے افغانستان میں متعلقہ شعبوں میں مہارت کو بہتر بنانے کی خاطر تربیت کے پروگرام شروع کئے جائیں گے اور پاکستان کے موٹر وے کو وسعت دے کر افغانستان کے سرحدی شہروں جلال آباد اور قندھار تک پھیلایا جائے گا۔

چین موٹر وے کو پشاور سے کراچی تک وسعت دینے کے سلسلے میں پاکستان کی مدد کر رہا ہے۔ افغانستان کی بیرونی تجارت کراچی کی بندرگاہ کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ یوں موٹروے کی تکمیل کے بعد افغانستان کیلئے اشیا کی ترسیل کا راستہ کم ہو جائے گا۔

پاکستانی سینیٹ کی خارجہ اُمور کی کمیٹی کے سربراہ مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبے سے متعلق امریکہ کے شکوک و شبہات کے باوجود تمام کے تمام ابتدائی 22 منصوبے یا تو مکمل ہو چکے ہیں یا ہونے والے ہیں۔

اُنہوں نے  کہا کہ سی پیک کو اب پاکستان اور چین سے مزید آگے افغانستان تک لیجانے کا وقت آ گیا ہے، کیونکہ افغانستان کی سرحدیں پاکستان اور چین سے ملتی ہیں اور معاشی، ثقافتی اور جغرافیائی اعتبار سے ان تینوں ملکوں میں ایک فطری تعلق موجود ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ اس ماہ ایک غیر سرکاری تھنک ٹینک اسلام آباد میں چین، پاکستان اور افغانستان کی ایک کانفرنس منعقد کرے گا جس میں افغانستان کو اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل کرنے کے طریقوں پر غور کیا جائے گا۔

چین نے گذشتہ برس تینوں ملکوں کے سہ فریقی مزاکرات کا اہتمام کیا تھا جس میں علاقائی کشیدگی کو کم کرنے اور افغانستان میں جاری جنگ کے پر امن اختتام سے متعلق غور کیا گیا۔

سینیٹر مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے سلسلے میں چین کا کردار انتہائی اہم ہے، کیونکہ چین کے پاکستان کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں۔ اس کے علاوہ چین ایک ایسا ملک ہے جس نے کبھی بھی افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی۔

چین اور پاکستان نے اس تاثر کو سختی سے مسترد کیا ہے کہ سی پیک اور بی آر آئی سے ترقی پزیر ممالک قرضوں کے بوجھ تلے دب کر رہ جائیں گے یا پھر ان کا مقصد خطے میں چین کے سیاسی اثر و رسوخ میں اضافہ کرنا ہے۔

دونوں ملکوں نے یہ تاثر بھی رد کر دیا ہے کہ سی پیک سے پیدا ہونے والے کسی مبینہ معاشی بحران کے باعث پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سی پیک منصوبوں کی رفتار کم کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ سی پیک کے تحت چین اگلے 10 برس کے دوران پاکستان میں 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔

پاکستان میں چین کے سفیر ژی جنگ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران کے آج منگل کے روز سے شروع ہونے والے چین کے سرکاری دورے سے پاکستان چین تعلقات مزید بلندیوں پر پہنچ جائیں گے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ اس دورے کے دوران ایسے معاہدوں پر بھی دستخط ہوں گے جن سے پاکستان کے تجارتی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔