رازق، رئیس، ازل – بیرگیر بلوچ

261

رازق، رئیس، ازل

تحریر: بیرگیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تین سنگت، تین جہدکار، تین فدائین مسکراتے ہوئے، قدم جماتے ہوئے، دشمن کے غرور کے پرخچے اڑاتے ہوئے، شہادت کا مقام پانے والے ساتھی رہتی دنیا تک یاد رکھے جائینگے۔

یاد رکھے جائینگے کہ کس طرح عاشق وطن ہاتھوں میں بندوق تھامے سینے پر گولیوں اور دستی بموں کا بیگ لٹکائے کس قدر اطمینان سے دشمن کے مورچے میں گھس کر اس پر سلسلہ وار حملہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔

وہم و گمان سے آگے ہیں، انکے لئے جو اس سطح کی سوچ سے ڈرتے ہیں۔

وہم و گمان سے آگے ہیں، ان کے لیے جو موت کے شکل سے خوف کھاتے ہیں۔

کچھ بھی نہیں ہیں یہ ان جیسے نڈر بہادر سنگتوں کے لیے جو پل بھر کی سختی مان کر ہمیشہ کی کامیابی تصور کرتے ہیں۔

کچھ بھی تو نہیں ہے، ان کے لیے جو موت کو بھی مقصد مان لیتے ہیں۔

انکے لئے لڑکر مرنے، مر کر دنیا سے الوداع ہونے سے بڑھ کر انکا فکر انکا مقصد انکا جہد ہوتا ہے جو ایک عمل جان کر اس سے گزر جاتے ہیں، تب ہی وہ مسکرا کر کئی ہفتے اس لمحے کے انتظار میں گذار دیتے ہیں اور ہر دن اپنے مستی مزاق میں مگن وہ اپنے فنا ہونے کی حکمت عملی کو ترتیب دے رہے ہوتے ہیں۔ وہ خود پلاننگ کرتے ہیں خود سامان اکھٹا کرتے ہیں خود اپنے ٹارگٹیڈ ایریا پر نظر رکھتے ہیں، خود ہی اپنے جنگ کے میدان کو تیار کرکے اور آخر کار اس میدان پر بہادرانہ وار کرنے اتر جاتے ہیں۔

بلوچ تاریخ میں پہلی بار اس طرح کی پلاننگ اور اس طرح کا طریقہ کار اپنانا خود میں ایک بہت بڑی کامیابی ہے، جو بلوچ قوم کے لیئے نئی راہ کا اختیار کرنا، حوصلہ بننا اور دشمن کے لیئے خوف کی علامت بننا ہے، دشمن جہاں سوچ تک نہیں سکتا تھا تین بلوچ سپوت وہاں پر پہنچ کر اسکے ہوش اڑا کر حملہ آور ہوگئے۔

یہ عمل ہی خود میں ایک الگ کامیابی ہے کہ کیسے دشمن کو کانوں کان بھنک بھی نہ لگی اور تین جہد کار اپنے ہدف کو پہنچ گئے۔

یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہوتا ہے، جب مخلصی، بہادری، حوصلوں سے لیس تین بلوچ جہدکار خود کو فنا ہونے کی خاطر پیش کر دیتے ہیں۔ جو بغیر کسی لمحے رُک کر سوچنے کے اپنے دیئے ہوئے کام پر نکل جاتے ہیں، جس شہر کے گلی روڈوں سے تینوں انجان مگر اپنے مقصد اپنے جہد سے لیس اپنے ہدف کو نکل جاتے ہیں جن کا خود سے بس نظریے کا رشتہ ہوتا ہے، جو خود کو ایک سپاہی کے طور پر جانتے ہیں، پھر بھی ایک دوسرے کے ساتھ موت تک جانے قدم بھڑانے کا راہی بن جاتے ہیں اور

کراچی جیسے حساس علاقے جہاں ہر جگہ موجود انٹیلیجنس کے بہروپیئے، پولیس انٹیلیجنس آرمی رینجرز کی چوکیاں، حساس علاقے اور سب سے بڑھ کر انجان شہر، انجان سڑکیں، انجان لوگ، جہاں قدم قدم پر چوکیاں جو بلاوجہ چند پیسوں کی خاطر لوگوں کو روک کر تلاشی کے نام پر پیسے نکالتے ہیں۔

جہاں مافیا، منشیات فروشوں کے علاوہ پشتونوں ایم کیو ایم کے خلاف پولیس و دوسرے اداروں کا چاک چوبند الرٹ رہنے کے باوجود تین فدائین ایک گاڑی لیکر شہر کے سڑکوں سے ہوتے ہوئے حساس ایریا جسے a one ایریا کا نام دیا جاتا ہے، وہاں داخل ہوکر اپنے ٹارگٹ تک پرسکون قدموں کے ساتھ بڑھنے لگتے ہیں، جہاں انہیں چائینیز کے علاوہ پندرہ سے بیس بولیس و رینجرز اہلکاروں سے لڑ کر اندر جانا ہوتا ہے، حملہ شروع کرتے ہی وہ ایک ایک کرکے تیسرے چوکی پر پہنچ جاتے ہیں، جہاں پر ایک گولی انکے ساتھی جو بقول بی ایل اے انکا ٹیکنیکل ماسٹر تھا کو لگنے کی وجہ سے اسکا آگے تک نہ پہنچنا، اسکے باوجود باقی دونوں ساتھی ویزہ سیکشن میں داخل ہوجاتے ہیں۔ جہاں سو سے پچاس لوگ موجود ہوا کرتے ہیں، ان میں سے کسی کو خراش تک نہیں پہنچا کر اپنے ٹارگٹ پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، ایک کمرے میں ڈیڈھ گھنٹے تک لڑائی لڑتے وقت انسانیت کی لاج رکھتے ہوئے اور انکے باشعور ہونے کا ثبوت ہی یہی ہے کہ وہاں موجود کوئی بھی عام شخص گولیوں کا. نشانہ نہ بنا یہی عمل انکے حوصلوں سے لیس جنگ کا اظہار کرتا ہے، یہی عمل دشمن کو خوفزدہ کرنے کا سامان بنے گا۔

چند لمحوں میں اپنے پیغام کو دنیا تک پہنچانے کا جو طریقہ ان سنگتوں نے اپنایا، وہ دشمن کے ہوش اڑانے اور چائنا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ بلوچ سپوت ہر جگہ اسکے طاق میں بیٹھے ہیں، یہ حملہ وقتی پیغام سے کہیں زیادہ مستقبل میں دشمن کے نفسیاتی شکست کا سبب بنے گا، تین ماہ کے اندر بی ایل اے جیئند بلوچ کے کمانڈ میں دو کاروائیاں ایک پھلین سنگت ریحان جان، دوسرا حالیہ تین سنگتوں کا حملہ دشمن کے شکست اور بلوچ قومی جہد کے کامیابی کا سبب بنے گا۔

مسلسل جنگ کے بعد بھی ساتھی خود کو آخری گولی مار کر اپنے اس اول دن کے خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں، جو انہوں نے حلف لیتے وقت لیا تھا کہ جنگ سے منہ نہیں موڑینگے آخری سانس آخری گولی تک لڑتے رہیں گے۔

سنگتوں کے عمل نے یہ باور کرایا کہ جنگ اپنے بساط اپنے طاقت اپنے حوصلوں پر لڑی جاتی ہے، ہم خود فیصلہ کرکے آگے بڑھینگے تب ہی ہم دنیا کو اپنے مقاصد سے آگاہ کر پائینگے۔ دنیا طاقت کا پجاری ہے، تو ہم نے بھی موت کو شکست دے کر خود کو ثابت کرنا ہے،

تب ہی تو موت کا ذرہ برابر بھی خوف نہیں ہوا ہوگا، انہیں ضرور یاد آئیں ہونگے وہ اپنے گذرے لمحات جو انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ہمرہ اپنے خاندان اپنے گھر اپنے لوگوں کے ساتھ گذاریں ہونگے، انہیں یاد آرہی ہوگی وہ مائیں جن سے چند لمحے پہلے الوداع کرکے رخصت ہو چلے تھے، فنا ہوکر اپنے مٹھی میں زندہ رہنے کے لیئے وہ لمحہ کس قدر عاشقانہ ہوگا، جب تین یار ایک ساتھ باتیں کرتے ہوئے مسکراتے ہوئے، لمحہ بہ لمحہ اپنے ہدف تک پہنچ رہے ہونگے، کس قدر عبور کر گئے ہونگے اس سوچ کو کہ آگے انکی موت نہیں انکے مقصد انکے جہد کی کامیابی کا عمل شروع ہونے کو ہے۔ اس جیسے ساتھیوں کو موت سے بڑھ کر انکے ذمہ کا کام اہمیت بھرا لگتا ہے، جو اپنے کاز اپنے مقصد کے راستوں کو روشن کرنے کے لئے لہو سے چراغاں کرتے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔