تیرہ نومبر اور ہم – شہیک بلوچ

159

تیرہ نومبر اور ہم

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

نومبر کی یخ بستہ ہوائیں پرانی یادوں کے سوکھے پتے بھی ساتھ لاتے ہیں۔ ان سوکھے پتوں میں اپنے ہم فکر سنگتوں، جہدکاروں کی مسکراتے چہرے پیلے پیلے نظر آتے ہیں۔ ایک اداسی کی کیفیت گھیر لیتی ہے، یخ بستہ گوریچ سے کہیں زیادہ تند وہ یادیں ہیں جو اپنے سنگتوں کی ہیں، کتنا بڑا اثاثہ ہم سے چھین لیا گیا لیکن اس دوران ہم نے صرف اپنی ذاتی انا کی تسکین کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔

بلوچ تحریک میں جو ابھار پیدا ہوا، کتنے نوجوان شامل ہوئے، کتنی صلاحیتوں سے بھرپور تھے، کس حد تک مخلص تھے کہ ظلم کی انتہا پر بھی آزادی کی جدوجہد سے دستبردار نہیں ہوئے۔

کتنوں کو گھر سے نکال دیا گیا کہ تحریک یا پھر گھر لیکن ان شہزادوں نے تحریک کی سختیوں کو گلے سے لگا لیا اور پھر مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ کتنے ارمان تھے جن کو تحریک کے لیے قربان کردیا، کسی کی شادی ہونے والی تھی، کسی کی شادی ہوچکی تھی، کسی کے گھر اولاد پیدا ہونا تھا، کسی کے اولاد تھے، کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ کسی عہدے پر پہنچ کر اچھی خاصی تنخواہ لے گا، نا ہی ذاتی کیریر بنائے گا بلکہ ان سب کے پاس ایک اجتماعی فکر تھا کہ بلوچ قومی آزادی کے لیے آخری حد تک جدوجہد کرنی ہے۔ کہیں میدان جنگ میں قربانی کی لازوال مثال بن کر، کہیں زندانوں میں انسانیت سوز اذیتوں سے دوچار ہوکر ہمارے ہم فکر سنگت ہم سے جدا ہوتے گئے لیکن اس دوران ہم نے جدوجہد کو توانا کرنے کی بجائے اپنی خودغرضی اپنی نفرت اپنی انا کو توانا کرنا شروع کردیا، ہم نے آہستہ آہستہ کرتے اپنے ہم فکر سنگتوں کے فکر کی خوشبو سے خود کو محروم کردیا اور ایک بے ہنگم ہجوم بن کر آپس میں الجھ پڑے۔ ہم نے خان محراب خان سے لے کر بابو نوروز، سدو مری، ڈاڈائے بلوچ اکبر خان اور عظیم بابا مری تک اپنے اجداد کو شرمندہ کردیا کہ ہم نے بلوچ اقدار کو فراموش کردیا، حمید، فدا و مجید بلوچ سے لے کر شہید شہید سگار، شہیک جان، حمید شاہین، مجید جونیر تک سب کی جدوجہد کو ہم نے اپنا اثاثہ سمجھ کر آگے بڑھانے کی بجائے ہم گروہی سازشوں میں جت گئے، اپنی قبائلی قد و کاٹ کو بڑھانے کے لیے اس سطح کا پروپیگنڈہ کیا گیا کہ کئی مرتبہ ذہن تسلیم سے انکاری تھا کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اتنی قربانیاں دیکھیں ہیں کیونکہ اگر واقعی دیکھی ہوتی تو یہ اپنے قبائلی ذہن کو تحریک کو وسیع مفاد میں قربان کرچکے ہوتے لیکن یہ تو تحریک کی قربانی پر تلے ہوئے ہیں۔

آج ہمیں اتنی محبت خود سے نہیں جتنی نفرت نوآبادیاتی نظام سے ہے کیونکہ اس نے ہمارے سماج کو انتہائی حد تک زہر آلود کردیا ہے، ہماری معیاری انسانی اقدار کو روند دیا ہے اور ہمیں اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ ہم اس کے ہاتھوں کھلونا بن کر تاریخی کردار ادا کرنے سے قاصر رہیں۔ ہمارا بہت بڑا انسانی اثاثہ نوآبادیاتی پالیسیوں کی نظر ہوگیا کیونکہ ہم اسے اداروں کے سانچے میں ڈھالنے میں ناکام ہوگئے اور ہم نے نوآبادیاتی پالیسیوں کا خود کو شکار کردیا یوں ہم تحریک کو مزات سے متبادل تک پہنچانے کی بجائے پس منظر میں لے گئے اور آج جب وقت کی ضربیں پڑنے لگی ہیں تب ہمارے ہوش ٹھکانے آرہے ہیں لیکن قبائلی مزاج اسی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہا ہے۔

13 نومبر کو اپنے شہیدوں کے فکر کو سنجیدگی سے یاد کرتے ہوئے اس تحریک کو ان کا اثاثہ سمجھ کر متحد و منظم کرنے کے لیے عملی جدوجہد کا اعادہ کرنا لازمی ہے۔ جدوجہد کو آخری سانسوں تک جاری رکھتے ہوئے اس میں مزید نکھار کا عزم لازم ہے اور ایمان ہے کہ ایک دن بلوچ 13 نومبر ایک آزاد سماج میں اپنے قومی ہیروز کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے منائینگے۔

آج ضرورت ہے تو دشمن کے لیے بالاچ کے بیرگیری جذبے کی، ہماری توانائیوں کا رخ نوآبادیاتی نظام کے خلاف ہونا چاہیئے اور ہمارا ہر عمل ہماری تحریک کو متحد و منظم کرنے کے لیے ہونا چاہیئے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔