تمام جنگوں کا اختتام سیاسی حل کے ذریعے ہونا چاہیے – افغان صدر

68

افغان صدر اشرف غنی نے ملک میں طالبان کی شورش کے خاتمے کے لیے جلد امن معاہدے کی امید ظاہر کردی۔

امریکا کی اولین تحقیقی یونیورسٹی ’جان ہوپکنز یونیورسٹی‘ جہاں وہ خود بھی پروفیسر رہ چکے ہیں، میں ویڈیو خطاب کے ذریعے ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں یہ معاملہ ’اگر‘ کی کیفیت سے نکل چکا ہے اور اب بات ہے ’کب‘ کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام جنگوں کا اختتام سیاسی حل کے ذریعے ہونا چاہیے یہاں بہت کم ایسی جنگیں ہیں خاص کر 21ویں صدی کی جنگیں جن کا اختتام فوجی طریقے سے ہوگا۔

افغان صدر جو آئندہ سال ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کے خواہاں ہیں، کا کہنا تھا کہ انہوں نے جون میں طالبان کو غیر مشروط جنگ بندی کی پیشکش کی اور خبردار کیا تھا کہ پاکستان کی مبینہ مداخلت طویل مدتی دشمنی میں اضافہ کرے گی۔

واضح رہے کہ پاکستان نے ایک روز قبل ہی 2 اہم طالبان رہنماؤں کو رہا کیا ہے جو افغانستان کے تقریباً نصف حصے پر قابض عسکری گروہوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کی امریکی کوششوں کا حصہ ہوسکتا ہے۔

دوسری جانب امریکی عہدیدار ’زلمے خلیل زاد‘ خطے کے دورے پر ہیں جس کے دوران وہ پاکستان، افغانستان ، متحدہ عرب امارات اور قطر بھی گئے۔

عبدالصمد ثانی جو امریکا کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے جاچکے تھے، 1990 میں طالبان کی حکومت کے دوران افغانستان کے مرکزی بینک کے گورنر رہ چکے ہیں اور ایک کم درجے کے کمانڈر صلاح الدین کے بارے میں طالبان عہدیداروں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں رہا کردیا گیا ہے۔

تاہم اس سلسلے میں پاکستانی حکومت کی جانب سے کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔

خیال رہے ’زلمے خلیل زاد ‘ کے گزشتہ دورے کے بعد بھی پاکستان نے ایک اہم طالبان رہنما، عبدالغنی برادر کو رہا کیا تھا، جنہیں 8 سال قبل امریکا اور پاکستان کے مشترکہ آپریشن میں گرفتار کیا گیا تھا۔

اس پر افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ انہوں نے عبدالغنی برادر کی رہائی کی ہر ممکن کوشش کی لیکن اسے پاکستان اور امریکا کی جانب سے مسترد کردیا گیا۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گزشتہ برس فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے اعلان کے بعد افغانستان میں کشیدگی کے خاتمے کے پر امن حل کی کوششوں میں گزشتہ کچھ ماہ میں تیزی آئی ہے۔

ادھر افغانستان میں طالبان کی جانب سے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر حملے کیے جارہے ہیں جس میں بڑے شہروں پر کی گئی کارروائیاں بھی شامل ہیں۔

خیال رہے کہ صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کی سربراہی میں افغان حکومت واشنگٹن اور طالبان کے براہ راست مذاکرات کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔

تاہم طالبان کی جانب سے براہ راست امریکا سے مذاکرات کے مطالبے کو نہ تو قبول کیا گیا نہ ہی مسترد لیکن اس ضمن میں امریکی عہدیدار زلمے خلیل زاد اور طالبان کے درمیان قطر میں مذاکرات جاری ہیں۔