بی ایس او بلوچ سیاست کی نرسری – زبیر بلوچ

488

بی ایس او بلوچ سیاست کی نرسری

زبیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

25 نومبر اپنے قیام سے لیکر آج تک جتنے سیاسی ورکر ،کیڈر،اور گوہر نایاب کارکناں حتی کے سیاسی پارٹیاں, بلوچ سیاست کو علم و نظریہ سے لیس اور شعور سے پختہ کرکے بی ایس او نے دیں, اتنی اب تک کسی تنظیم اور پارٹی نے اس حد تک سیاسی کیڈر سازی اور نظریہ سازی نہیں کی جو بلوچ قومی سیاست میں قومی استحصال ، جبر ،اور سامراجی لوٹ کھسوٹ کے خلاف اپنی تاریخی قومی ذمہ داریوں ،اور جدوجہد کے شپت کے مان رکھ سکے۔

بی ایس او کا قیام ایک ایسے وقت میں عمل میں آیا جب دنیا کی سیاست میں سامراجی غلبے کے خلاف عالمی انقلابی تحریکیں اور انقلابات اپنے عروج پر تھیں. بی ایس او کی ترقی پسندانہ سیاست دنیا کی تبدیلیوں سے اثرانداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکی ۔غلامی کی زنجیروں کو توڑنے ،سماج میں رجعت پسندانہ رویوں اور قدامت پسندی کے خلاف بلوچ مفلوک الحال اور درتہ پچ عوام کے ساتھ ساتھ دنیا کے محنت کش ،محکوم عوام اور پسے ہوئے طبقات اور قومیتوں کےقومی حق خودارادیت و آزادی کے حصول کے لیے ظلم کی کالی راتوں میں ایک قندیل اور انقلابی مشعل تھی جو بلوچ سمیت دنیا کے تمام مفلوک الحال غریب طبقات اور محکوم عوام کے لیے ایک سرخ سویرے کی امید و آس بن گئی تھی۔ ایوبی ننگی آمریت اور انسانیت سوز جارحیت جب مادر وطن پر آگ اور خون کا بھیانک منظر کھینچ رہی تھی تو بی ایس او کے نڈر اور دلیر کارکنوں اور جرات مند قیادت نے بلوچ محنت کش ،غریب و لاچار اور درتہ پچ عوام کو شعوری بنیادوں پر اپنے انقلابی پلیٹ فارم کے توسط سے استحصال ،جارحیت ،سفاکیت اور بربریت سے نفرت ،مزاحمت، اپنے وطن سے عشق اور منزل کے حصول کے لیے جدوجہد کا قومی احساس دیکر قومی جبر اور طبقاتی نابرابری کے خلاف عملی جدوجہد کے لیے منظم کیا۔صدیوں سے قائم جاگیردارنہ نظام ، قبائیلت اور دقیانوسیت جن کی سرشت میں لٹ پل ، نابرابری ،اور آقا اور غلامی کی تصور تھی کو کھوکھلا کرکے جڑ سے اکھاڑ دیا ۔

بی ایس او کے شاندار ماضی جدوجہد اور سیاسی مزاحمت کاماضی ہے جو اپنے انقلابی پروگرام ،ہدف اور تنظیمی ڈسپلن کی وجہ سے اس وقت کے خطے میں موجود دیگر ترقی پسند طلبا تنظیموں سے تنظیمی طور پر بہتر فعال اور متحرک تھی اسی بنا پر بی ایس او ایشین اسٹوڈنٹس ایسوسیشن ،آل پاکستان پروگریسو اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ،اور طلبا یونین کے مرکزی صدر اور سکریٹری جنرل کے عہدہ پر دیگر ترقی پسند طلبا تنظیموں کی قیادت کر چکی ہے۔کشمیر ، افغانستان،عمان میں جاری انقلابی تحریکوں کے ساتھ جڑت ان کے سیاسی ،اخلاقی،اور نظریاتی تائیدوحمایت میں عملا سامراجیت اور قبضہ گیریت کے خلاف مزاحمت اور بغاوت بی ایس او کے ایک طلبا تنظیم کے ساتھ ساتھ ایک قومی انقلابی پارٹی کے کردار اور اس خلا کو پر کرنے کی کوششیں ہیں ۔

بی ایس او نے قومی استحصال ،طبقاتی نابرابری ،سامراجی لٹ وپل، جہالت،بےشعوری،مزہبی بنیاد پرستی ،قدامت پسندی اور سماج کی ان پرتوں کے خلاف بھی بغاوت کی جو جدید سائنسی علوم ،منطق عقلی استدلال ،اور مثبت سماجی سرگرمیوں کی جگہ رجعت پسندانہ خیالات ۔عصبیت،لسانی و علاقائی ، اور مسلکی تعصبات کو بلوچ سماج کی زینت بنانا چاہتے تھے ۔

بلوچ روایتی قیادت نے بی ایس او کو اصل انقلابی پروگرام ،ہدف اور مقصد سے ہٹا کر انھیں موقع پرستی ،گروہی وذاتی مفادات ،زندہ باد مردہ باد،جسے رد انقلابی رویوں ، سطحی غیر سنجیدہ سرگرمیوں میں الجھا کر غیر سیاسی لبادے میں ڈھال کر خصی کرکے خوف کے بھینٹ چڑھانے کی دانستہ, نادانستہ طور پر کوشش کی ہے ۔

بی ایس او کی اکیاون ویں یوم تاسیس بلوچ نوجوانوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ وہ معروض کو سمجھتے ہوئے جمود کی کیفیت کو توڑ کر طلبا سیاست کے روایت کو زندہ رکھ کر بلوچ سیاست میں موجود قیادت کے بحران کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ علم ،نظریہ،فکری بحث و مباحثہ،اور سنجیدہ سیاسی رحجانات کو رواج دیکر جو بی ایس او کے سیاست کے آبرو شان اور کلچر ہوتے تھے کو پھر سے دوام دیں. روایتی سیاست،چاپلوسی ،کاسہ لیسی،موقع پرستی،اور مفاد پرستی کی سیاست کو پس پشت ڈال کر حقیقی طلبا سیاست کو زندہ وپائندہ کرکے بلوچ سیاست کو منزل مقصود تک پنچانے میں اپنا قومی وطنی،اور تاریخی فریضہ ادا کریں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔