بلوچ مزاحمتی تحریک میں خواب ۔ وعدے اور تبدیلی – ذاکر لانگو

520

بلوچ مزاحمتی تحریک میں خواب ۔ وعدے اور تبدیلی

تحریر: ذاکر لانگو

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ مزاحمتی تحریک تو شروع کئے چند سالوں میں بی ایل ایف اور بی آر اے کے وجود پذیر ہونے میں ٹکُڑوں میں بٹ کر منتشر ہوا تھا، مگر چند دوست اسے ایک حکمت عملی قرار دے رہے تھے ۔ گو کہ یہ حکمت عملی اُسوقت بھی مشکوک تھا۔ شکوک و شُبہات کیوں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مقبوضہ علاقہ ایک، قوم ایک، زبان ایک، منزل ایک، پھر قومی فوج کیوں ایک نہیں؟

گو کہ اس مشکوک حکمت عملی پہ بھی بلوچ قوم نے لبیک کہا اور من و عن آزادی کی تحریک پہ اپنے لختء جگروں کو نچھاورکرتے رہے۔ پھر ان تین مسلح جماعتوں میں بھی کئی دھڑے جنم لیتے رہے۔ بی ایل اے دو لخت ہوا یوبی اے کی شکل میں۔
بی ایل ایف ۔ بی این ایل ایف ۔ بی یو ایل ایف ۔
بی آرے اے ۔ بی آر جی ۔

اس دوران کئ گمُنام گروپ بھی کام کرتے اور ساکت ہوتے رہے، اقوام متحدہ کا رکن جان سولیکی بھی اغواہ اور پاکستانی ریاست کے وزیر تعلیم شفیق آحمد خان بھی لُقمہ اجل بن گیا تھا۔

اسی اثناء میں مزاحمت کرنے والے مزاحمت کرتے رہے اور تفریق و شرانگیزی پھیلانے والے تفریق اور شر انگیزی پھیلاتے رہے۔ قابض ریاست فائدہ سود سمیت حاصل کرتا رہا۔ گو کہ ہر کوئی محوسفر رہا، مگر بلوچ قوم اس سفر میں آپسی چپلقشیوں کیوجہ سے کسی بھی فائدے سے ہمکنار نہیں ہوسکا۔ ہاں یہاں اس امر سے منکر نہیں بن سکتے ہیں کہ قوموں نے آزادی کے سفر میں کئی صدیوں پہ مُحیط پُرخار سفر طے کرکے منزل تک پہنچے۔

جو قومیں کئی عشروں تک کسی بھی لحاظ سے فائدہ حاصل نہیں کرسکے، وہ بلوچ ہے یاپھربلوچ قوم جیسے کہلائے جارہے ہیں ۔ مگر ہمیں ان قوموں کی ناکامیوں سے انکی آزادی کی سفر کی طوالت کی وجوہات سے سبق لینا چاہیئے تھا مگر ہم اس میں بھی ناکام رہے۔ ہمیں بُہت پہلے یکجہتی سے بلوچ قوم کے فرزندوں کی کم قربانی دے کے منزل کی جانب گامزن ہونا تھا، مگر ان سب تلخ تجرُبات کے مشاہدے کے بعد کُچھ اناپرست وضدی، کُچھ شوقء لیڈری کے مریضوں اور کُچھ ذاتی مفاد پرست لیڈروں کے ہاتھوں بلوچ قوم یرغمال رہا۔

بہرحال لیڈران کی خراب پالیسی، ناکام سفارتکاری اور گروانڈ میں موجود کمانڈران کی خاموشی، اجارہ داری اور ذاتی مفادات کوترجیح دینے والی پالیسی سے بلوچ قوم قربانی کا بکرہ بنتا رہا جوکہ ہنوز جاری ہے۔

شاید تحریک کے اول سالوں کے چند غلط فیصلوں کی وجہ سے باقی ماندہ منتشر بلوچ مزاحمتی تنظیمیں اپنے کمانڈران اور سپاہی ساتھیوں سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔
جسکی حالیہ مثال ہے
حاجی قلاتی ناڑی مُراد
الطاف بلیدی عرف للہ اُستاد مرحوم جگو
ستار بُگٹی خیرو بُگٹی
نبی داد مزارانی مری
دُرآن عرف بزرگ مہکانی مری۔

یہ چند چیدہ چیدہ سرینڈر شدہ کمانڈران کا مندرجہ بالا ذکر کی گئی ہے، مگر ان غلط پالیسیوں کا تسلسُل سے شکار ہونے والے کئی اور کمانڈران اور سپاہی اس پسپائی کے قطار میں شامل ہیں۔

مزاحمت کے پُرخار اور کٹھن حالات سے سامنا کرنے کے بعد چند مزاحمتی تنظیموں نے مشترکہ کاروائیاں اور اتحاد نامی چند وقتی گاجر بھی قوم کے سامنے لٹکا دیئے گئے۔

اب BLM نامی کسی تنظیم کابھی پرچار بھی کیا جا رہا ہے، جسکا مقصد ہے اُسکے بیان کے مُطابق کہ بلوچ مزاحمتی منتشر قوتوں کو یکجاء کرکے ایک قومی فوج تشکیل دینا۔

اگر خُدانخواستہ اس دفع بلوچ قوم کو اپنی زیست اور شناخت کی جنگ میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، تو ذمہ دار صرف اور مزاحمتی تنظیموں کے کمانڈران اور باہر بھیجے گئے لیڈران جو مڈل کلاس طبقے کی شکل میں ہو یا سرداروں کے شکل میں ہو۔ پھر بلوچ کسی سے گلہ شکوہ یا حالات کا رونا نہیں روئے گا۔

اپنے گھروں کے چراغوں کو بُجھا کر آزادی کے سپنے دیکھنے والا قوم جب ناکامی اور مایوسی کے تاریکیوں میں خود کو پائے گا تو تمام زمہ داروں کے، مڈل کلاس لیڈروں کے، نواب و آزادی پسند سرداوں کے سروں کو سرء دار لٹکاینگے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔