بلوچ علیحدگی پسندوں کا چینی قونصل خانے پر حملہ۔ الجزیرہ رپورٹ

423

مجید برگیڈ خودکش حملہ آوروں اور فدائیوں کی نئی قوت ہے جسے بی ایل اے نے پاکستانی فوج اور چینی اہداف کے خلاف قائم کیا ہے

پاکستان کے جنوبی شہر کراچی میں واقع چینی قونصل خانے پر مسلح افراد کے حملے کی کوشش میں کم از کم دو سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوگئے، اس حملے کی ذمہ داری بلوچ آزادی پسندوں نے قبول کرلی ہے۔

پاکستانی فوج نے ایک بیان میں کہا ہے کہ احاطے کو محفوظ بنا لیا گیا ہے اور تینوں حملہ آوروں کو ماردیا گیا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ حملے میں کوئی چینی یا پاکستانی شہری نہیں مارا گیا ہے۔

پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ” چینی قونصل خانے میں موجود ہمارے سارے چینی دوست اور آفیشل جن کی تعداد 21 تھی محفوظ ہیں اور ان سب کو محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔”

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اس حملے کو پاکستان اور چین باہمی تعاون کے خلاف ایک سازش قراردیا ہے اور تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

چین نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اپنے اتحادی پاکستان سے اپیل کی ہے کہ وہ اسکے شہریوں کو مزید سیکورٹی فراہم کرے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ نے ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا ہے کہ ” چین سفارتی حکام کے خلاف کسی بھی حملے کی سخت مذمت کرتا ہے اور ہم پاکستان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ پاکستان میں موجود چینی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔”

اس حملے کی ذمہ داری بلوچ آزادی پسند جماعت بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی ہے، جو گذشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے پاکستان کے خلاف بلوچستان کی آزادی کیلئے لڑرہا ہے۔”

بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ نے ایک نامعلوم مقام سے جب حملہ جاری تھا اسوقت سیٹلائٹ فون کے ذریعے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ” بی ایل اے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتی ہے، ہمارے تین سربازوں نے قونصل خانے پر حملہ کردیا ہے۔”

لیاقت جنڈگا، جو قونصل خانے کے احاطے میں ہی رہتے ہیں الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ” ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ جنگ زدہ خطہ ہے، فورسز میرے گھر کے چھت پر چڑھ گئے کیوںکہ میرا گھر چینی قونصل خانے کے عین سامنے ہے۔”

” میرے گھر کے چھت سے فائرنگ کا تبادلہ قریباً 45 منٹ تک جاری ہے، ہم بہت ڈرے ہوئے تھے، ہم اس وقت ہی باہر نکلے جب سب ختم ہوگیا۔” انہوں نے مزید بتایا

چینی اہداف:۔
جیئند بلوچ کا کہنا ہے کہ حملہ آور فدائین مجید بریگیڈ کے رکن تھے، مجید برگیڈ خودکش حملہ آوروں اور فدائیوں کی نئی قوت ہے جسے بی ایل اے نے پاکستانی فوج اور چینی اہداف کے خلاف قائم کیا ہے۔

ماہ اگست میں بی ایل اے نے دالبندین کے مقام پر چینی انجنیئروں کے ایک بس پر بھی خود کش حملہ کیا تھا، جس میں متعدد زخمی ہوئے تھے۔

بلوچستان، جو پاکستان کا سب سے وسیع و عریض اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے آنے والے دنوں میں سڑکوں کا جال اور نئی تعمیر شدہ گوادر پورٹ دیکھنے والا ہے، جو 56 بلین ڈالر کے سی پیک پراجیکٹ کے مد میں بن رہے ہیں۔ یہ اقتصادی راہداری چین کو بحیرہ عرب سے بلوچستان سے ہوتے ہوئے جوڑ دے گا۔

بی ایل اے اور دوسرے آزادی پسند مسلح بلوچ جماعتیں تواتر کے ساتھ سی پیک کے آغاز سے ہی چینیوں اور سی پیک پروجیکٹ پر حملے کررہے ہیں اور اس منصوبے کو ایک سامراجی منصوبہ گردانتے ہیں۔

” ہمارا مقصد واضح ہے، ہم بلوچ سرزمین پر چینی فوجی توسیع پسندانہ عزائم کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔” بی ایل اے نے اپنے ایک بیان میں کہا

بی ایل اے نے تین نوجوانوں ازل خان، رازق بلوچ اور رئیس بلوچ کی تصاویر بھی جاری کیں اور دعویٰ کیا کہ یہ وہ حملہ آور ہیں، جنہوں نے قونصل خانے پر حملہ کیا ہے۔ بعد میں ایک ٹویٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ وہ مقابلے میں مارے گئے ہیں۔

پاکستان سی پیک کی حفاظت کیلئے کئی نئی سول آرمڈ فورسز شاخیں قائم کررہا ہے، حکومت اور فوج دونوں کا ماننا ہے کہ سی پیک تزویراتی اعتبار سے ملک کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

دفاعی تجزیہ نگار زاھد حسین نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ” اس حملے سے سی پیک پر بہت اثر نہیں پڑے گا، یقینی طور پر سی پیک کے حفاظت کیلئے اب مزید فورسز کی ضرورت پڑے گی لیکن مجموعی طور پر پراجیکٹ نہیں رکے گی، یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ اس طرح کے حملے ہوئے ہیں۔”

بی ایل اے کون ہے؟
سنہ 2000 میں قائم ہونے والا یہ گروپ، بلوچ لبریشن آرمی ایک بلوچ قوم پرست مسلح جماعت ہے جو بلوچستان کی آزادی کیلئے لڑرہے ہیں۔

بلوچ لبریشن فرنٹ اور بلوچ لبریشن آرمی کئی سالوں سے متحرک نمایاں آزادی پسند مسلح جماعتیں ہیں۔

بی ایل اے زیادہ تر حملوں میں بندوق اور بموں کا استعمال کرتی رہی ہے، تاہم اگست 2018 سے مجید بریگیڈ کے ذریعے یہ تنظیم کثرت سے خود کش حملے کررہی ہے۔

اس گروہ کے زیادہ تر نشانے پر حکومت اور سیکورٹی فورسز ہوتے ہیں، اسکے علاوہ آبادکاروں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، جن کے بارے میں انکا دعویٰ ہے کہ انکے ذریعے پاکستان آبادنگارانہ تبدیلیاں لانا چاہتا ہے۔ اسکے علاوہ یہ گروپ تنصیبات جیسے کے گیس پائپ لائن اور ریلوے لائنوں پر بھی حملے کرتی رہتی ہے۔

2014 سے یہ گروپ سی پیک پر کام کرنے والی چینی شہریوں اور منصوبوں پر خاص طور پر حملے کرتی رہی ہے۔

نومبر 2018 کو چینی قونصل خانے پر حملے کے بعد بی ایل اے نے کہا کہ ” وہ بلوچ سرزمین پر چینی فوجی توسیع پسندانہ عزائم کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔”

بی ایل اے پاکستان اور برطانیہ میں دہشتگرد تنظیموں کے فہرست میں شامل ہے۔

ترجمہ دی بلوچستان پوسٹ