بحیرۂ جنوبی چین کسی ایک ملک کی ملکیت نہیں – امریکہ

239

امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس نے کہا ہے کہ بحیرۂ جنوبی چین کسی ایک ملک کا نہیں اور امریکی بحری جہاز اور طیارے ان تمام علاقوں میں اپنا گشت اور پروازیں جاری رکھیں گے جہاں بین الاقوامی قوانین انہیں اس کی اجازت دیتے ہیں۔

امریکی نائب صدر کے اس بیان کا بظاہر مخاطب چین ہے جو بحیرۂ جنوبی چین کے بیشتر حصے پر ملکیت کا دعوے دار ہے اور ماضی میں علاقے میں امریکی طیاروں اور جنگی جہازوں کے گشت پر سخت ردِ عمل ظاہر کرتا آیا ہے۔

جمعے کو سنگاپور میں جاری جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم ‘آسیان’ کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مائیک پینس نے کہا کہ  امریکی طیارے اور بحری جہاز ہر اس جگہ جائیں گے جہاں جانے کی بین الاقوامی قانون انہیں اجازت دیتا ہے اور جہاں جانا امریکہ کے قومی مفاد میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ بحرالکاہل اور بحرِ ہند کے علاقے میں کسی “سلطنت یا جارحیت” کی کوئی گنجائش نہیں۔ ان کے اس بیان کا بظاہر ہدف بھی چین اور خطے میں اس کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ تھا۔

اپنے خطاب میں امریکی نائب صدر نے چین کا نام لے کر بھی اسے براہِ راست تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا کہ بحیرۂ جنوبی چین میں چین کی فوجی تنصیبات اور توسیع پسندانہ عزائم غیر قانونی اور خطرناک ہیں جن سے کئی ملکوں کی خودمختاری کو خطرہ لاحق ہے۔

چین کے علاوہ برونائی، ملائیشیا، فلپائن، ویتنام اور تائیوان بھی بحیرۂ جنوبی چین کے بعض حصوں کی ملکیت کے دعوے دار ہیں۔

اس سمندر کے راستے ہر سال 30 کھرب ڈالر مالیت کی تجارتی اشیا کی ترسیل ہوتی ہے اور چین اس کے بعض ایسے حصوں پر بھی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے جسے خطے کے دوسرے ممالک اپنی حدود میں شامل قرار دیتے ہیں۔

امریکی حکام مسلسل بحیرۂ جنوبی چین میں چین کی جانب سے مصنوعی جزائر کی تعمیر اور ان پر فوجی تنصیبات کی تیاری کی مخالفت کرتے آئے ہیں اور امریکی بحریہ کے جنگی جہاز اور طیارے بارہا علاقے میں پروازیں اور گشت کرچکے ہیں۔

امریکی نائب صدر کے حالیہ بیان پر چین نے کہا ہے کہ امریکہ سمیت کسی ملک نے بھی آج تک چین کو ایسا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں جنوبی بحیرۂ چین کی حدود میں آزادانہ بحری یا فضائی نقل و حمل میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

جمعے کو بیجنگ میں ایک پریس بریفنگ کے دوران چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ہوا چن یِنگ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ان کا ملک امریکہ کو یہ یاد دلانا چاہتا ہے کہ اس نے اب تک اقوامِ متحدہ کے سمندروں میں نقل و حرکت سے متعلق معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ اس معاہدے پر دستخط کردے تو اس کے نتیجے میں بحیرۂ جنوبی چین کے علاقے میں امن اور استحکام کے تحفظ میں مزید مدد ملے گی۔

سنہ 1982 میں طے پانے والے اس عالمی معاہدے کے تحت ساحلی ریاستوں کو سمندروں میں اپنی حدود اور خصوصی اقتصادی زونز کے تعین کی اجازت دی گئی ہے۔

چین اس معاہدے پر دستخط کرچکا ہے اور اس کا موقف ہے کہ بحیرۂ جنوبی چین میں اس کے تمام اقدامات عالمی قوانین کے تحت ہیں۔