امریکہ و برطانیہ کا آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کا خیر مقدم

215

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے توہین مذہب کیس میں آسیہ بی بی کی بریت کی بازگشت برطانوی پارلیمنٹ تک پہنچ گئی۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق پاکستانی سپریم کورٹ کا ذکر برطانوی پارلیمنٹ میں بھی ہوا اور وقفہ سوالات کے درمیان برطانوی وزیر اعظم تھریسامے سے اس فیصلے کو تسلیم اور تعریف کرنے سے متعلق سوال پوچھا گیا۔

برطانوی رکن پارلیمنٹ نے وزیر اعظم تھریسامے سے پوچھا کہ ’ کیا وزیر اعظم، پاکستان کے سپریم کورٹ کی جانب سے نوجوان مسیحی خاتون اور 5 بچوں کی والدہ آسیہ بی بی، جنہوں نے محض پانی پینے کے معاملے پر پیدا ہونے والے تنازع میں توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت کا سامنا کرتے ہوئے 8 سال جیل میں گزارے، ان کی سزا کالعدم قرار دینے کو خوش آمدید کہیں گی اور کیا وزیر اعظم، پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جرأت اور بہادری اور انصاف کی فراہمی قائم کرنے اور آسیہ بی بی کی رہائی سے تمام عقائد کے لیے مذہبی آزادی کے بھیجے گئے پیغام کی تعریف کریں گی؟

اس پر برطانوی وزیر اعظم نے جواب دیا کہ ’پاکستان سے آنے والی آسیہ بی بی کی رہائی کی خبر کا ان کے اہل خانہ اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں ان کی رہائی کی مہم چلانے والوں کی جانب سے خیر مقدم کیا جانا چاہیے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’سزائے موت پر ہمارا ٹھوس مؤقف سب جانتے ہیں اور ہم عالمی سطح پر اس کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں‘۔

دریں اثناء امریکا کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کمیشن (یو ایس سی آئی آر ایف) نے پاکستان کے سپریم کورٹ کی جانب سے توہین مذہب کیس میں آسیہ بی بی کی سزائے موت کالعدم قرار دینے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور ساتھ ہی مطالبہ کیا ہے کہ توہین مذہب کے الزام میں گرفتار دیگر ملزمان کو رہا کیا جائے۔

یو ایس سی آئی آر ایف نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں کیونکہ ان کے دفاع کے دوران پاکستانی حکومت کے دو حکام شہباز بھٹی اور سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا۔

امریکا کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کمیشن کے چیئرمین ٹینزن ڈورجی کا کہنا تھا کہ ’ آسیہ بی بی کا کیس واضح کرتا ہے کہ توہین مذہب کے قوانین کو کس حد تک اقلیتی برادری کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جبکہ ان قوانین کا مقصد فرد کے بجائے پورے مذہب کی حفاظت کرنا ہونا چاہیے، اس کے علاوہ اس کیس کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیار کے مطابق ہونا چاہیے تھا‘۔

انہوں نے کہا کہ’ یہ انتہائی تکلیف دہ بات تھی کہ آسیہ بی بی کا کیس اس حد تک پہنچا، وہ پاکستان کی تاریخ میں توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت پانے والی پہلی خاتون تھیں‘۔

دوسری جانب سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد پیش آنے والی صورتحال پر یو ایس سی آئی آر ایف نے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ آسیہ بی بی کی رہائی پر ان کی حفاظت کو یقینی بنائیں‘

امریکی ادارے نے آسیہ بی بی کے فیصلے کا جہاں ایک طرف خیر مقدم کیا وہیں انہوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ بھی کیا کہ توہین مذہب کے الزام میں قید 40 افراد کو رہا کیا جائے۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ 2002 سے ہر سال یو ایس سی آئی آر ایف کی جانب سے یہ سفارش کی جاتی ہے کہ ’مذہبی آزادی کی خلاف ورزی‘ پر پاکستان کو ’خاص تشویشناک ملک‘ قرار دیا جائے۔

اس کے علاوہ یو ایس آئی آر ایف کی جانب سے یہ بھی مطالبہ سامنے آتا رہا ہے کہ ’مذہبی آزادی کی خلاف ورزی‘ کے ذمہ دار لوگوں کے اثاثے منجمد اور ویزے منسوخ کیے جائیں۔

خیال رہے کہ 31 اکتوبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین مذہب کیس میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی سزائے موت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کرنے کا حکم دیا تھا۔