آزادی کی کھٹن راہیں – میر بلوچ

330

آزادی کی کھٹن راہیں

تحریر: میر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ایک مفکر کا کہنا ہے کہ آزادی کی راہ میں مرنا غلامی کے سائے میں جینے سے بہتر ہے اور جو شخص ہاتھ میں بندوق لئے موت کو گلے لگانے میں خوفزدہ نہیں ہوتا، ایسے لوگ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں کیونکہ زندگی صرف سانسیں لینے کا نام نہیں بلکہ اصل زندگی اسکے مقصد کو سمجھنا، ظلم و بربریت کے خلاف عملی جہاد کرنا، مصائب اور تکلیف کو سہنا اور حق اور سچ کے لئے جان دینے کا نام ہے۔

آزادی کی تحریکات میں قوموں کی لازوال قربانیاں تاریخ کے صفحوں میں درج ہیں کیونکہ آزادی حاصل کرنا پھولوں کی سیج نہیں کہ آسانی سے مل جائے بلکہ اسکے لیے خون کا دریا پار کرنا پڑتا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں کہیں یہ درج نہیں کہ کسی قوم نے بغیر قربانی کے آزادی حاصل کی ہو۔ ان قوموں کو شعور تھا اگر آج ہم اپنی انفرادی مفادات کو اجتماعی مفادات میں تبدیل نہ کریں، جدوجہد نہ کریں تو ہماری آنے والی نسلوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اسی لئے انہوں نے اپنے آج کو آنے والے کل کے لئے قربان کردیا۔ اپنے قوم کو علم و شعور سے آراستہ کرنے کے لئے پرکھٹن راہوں کا انتخاب کیا اور اپنی قومی آزادی حاصل کرکے خود کو زندہ قوم کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کیا۔

اگر ہم بنگلہ دیش کی تحریک کی مثال لیں تو اس قومی تحریک کو ختم کرنے کیلئے خون کی ندیاں بہادی گئی، عورتوں کی عصمت دری کی گئی، لیکن انہوں نے اپنے آنے والی نسل کی خوشحالی کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا۔ آزادی کے بعد بنگلہ دیش کی نئی آنے والی نسل نے اپنے اسلاف کی قربانیوں کو سراہا۔ اپنے شہدا کو زندہ رکھنے کے لئے ان کا ایک دن مقرر کیا اور مختلف پروگرام کا انعقاد کرکے انکی جدوجہد کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔

یہ بالکل سچ ہے کہ شہید کبھی نہیں مرتا بلکہ وہ اپنے جہد مسلسل،افکار و نظریات کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ دنیا میں خوش قسمت ہیں وہ قوم جن کی تاریخ شہیدوں سے بھری پڑی ہیں۔

تاریخ میں بلوچ کا شمار بھی ان قوموں میں ہوتا ہے جنھوں نے ہر قبضہ گیر کے خلاف جدوجہد کی اور انکو اپنی سر زمین سے بے دخل کیا۔ چاہے وہ عرب ہو یا بدو، منگول ہو یا پرتگیزی ہر قوم کا بلوچ نے مردانہ وار مقابلہ کیا۔

13نومبر1839جب بلوچستان پر برطانیہ نے اپنے سامراجی پالیسیوں کی تکمیل کے لئے قبضہ کرنے کی غرض سے حملہ کیا تو اپنے سرزمین کے دفاع کے لئے نواب محراب خان نے انگریزی فوج جو جدید ہتھیاروں سے لیس تھے کہ مقابلے میں تلوار کی مدد سے ان کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ نواب محراب خان کی شہادت کے بعد رفتہ رفتہ انگریز بلوچ سر زمین پر قابض ہوتے چلے گئے۔ لیکن یہ طاقتور ملک شہید نواب محراب خان کے فلسفے کو شکست دینے میں مکمل ناکامی کا شکار رہا۔ اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بلوچ سرزمین کے وارثوں نے اپنے جہد آزادی کو آگے بڑھایا۔ 1897کو گوکپروش کے مقام پر بلوچ خان نوشیروانی نے 250ساتھیوں کے ہمراہ انگریز فوج کا ڈٹ کے مقابلہ کیا اور سر زمین کی محبت میں جام شہادت نوش کی۔ 13نومبر کی مزاحمت بلوچ قومی تاریخ کا ایک اہم باب ہے جسے کسی صورت فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ دور کی جدوجہد اسی جہد کا تسلسل ہے جسکی بنیاد نواب محراب خان نے رکھی۔ بلوچ قوم کی انگریز کے خلاف سیاسی و مسلح جدوجہد کی مرہون منت بلوچ سرزمین 11اگست 1947کو ایک آزاد ریاست کے طور پر ابھرا۔

لیکن کمزوریوں اور سازشوں کا شکار بلوچ ریاست پاکستان، برطانیہ اور سرداروں کی گٹھ جوڑ کا شکار ہو کر ایک بار پھر پاکستانی قبضے میں چلا گیا۔ اس قبضے کے خلاف بلوچ قوم کی جدوجہد آج بھی ہزاروں مشکلات کے باوجود اپنے منزل کی جانب رواں دواں ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔