سرحدی تنازعہ، چمن کے مقام پر بارڈر تیسرے روز بھی بند

122
File Photo

پاکستان اور افغانستان کی سرحد، گزشتہ دنوں پیش آنے والے نا خوشگوار واقعے کے بعد تیسرے روز بھی بند، تاہم چمن میں باب دوستی کو حکام کے درمیان مذاکرات کے بعد صرف پیدل جانے اور آنے والوں کےلئے کھول دیا گیا۔

اتوار کو سرحد پر باڑ لگانے والی پاکستانی ٹیم پر افغان سرحدی فورسز نے فائرنگ کر دی تھی جس کے بعد دوطرفہ فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا جو کئی گھنٹے تک جاری رہا، بعد میں پاک افغان سرحد پر دونوں ملکوں کی فورسز آمنے سامنے آگئیں اور سرحد پر کشیدگی میں اضافہ ہوگیا۔

واقعے کے بعد پاک افغان سرحد پر باب دوستی کو ہر طرح کی پیدل آمد و رفت اور ٹریفک کےلئے بند کردیا گیا جو آج دوسرے روز بھی بند رہی۔ پاکستان کی جانب سے آج صبح باب دوستی گیٹ کھولنے کی کو شش کی گئی لیکن افغان فورسز نے اپنے ملک کا دروازہ کھولنے سے انکار کیا۔

پاکستانی اور افغان حکام نے بعد میں باہمی مشورے سے ایک دوسرے کے ملک میں پھنسے ہوئے افراد کو پیدل واپس جانے کی اجازت دے دی۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان روزانہ سینکڑوں ٹرک آتے جاتے ہیں۔ سرحد پر اس وقت کئی ٹرک کھڑے ہیں جن میں تازہ میوہ جات لدے ہوئے ہیں۔ ٹرانسپورٹرز کا کہنا ہے کہ اگر سرحد جلد نہ کھولی گئی تو یہ خراب ہو جائیںگے۔

ذرائع کے مطابق قوی امکان ہے کہ سرحد آج مکمل طور پر کھولی جائیگی۔

افغان حکومت کی مدد کےلئے نیٹو فورسز کا سامان لانے والے ٹرک بھی بڑی تعداد میں اس سرحد سے گزر کر افغانستان میں داخل ہوتے ہیں۔

پاکستان کے سرحدی ضلع قلعہ عبداللہ چمن اور افغانستان کے سرحدی ضلع اسپین بولدک سے ملحقہ آبادی کی اکثریت کا دار و مدار سرحدی کاروبار سے وابستہ ہے۔

پاکستان سے روزانہ کم از کم سات ہزار افراد روزگار کی غرض سے افغانستان داخل ہوتے ہیں اور واپس آتے ہیں جبکہ افغانستان سے بھی کم و بیش اتنی ہی تعداد میں لوگ علاج معالجہ اور پاکستان میں رہنے والے اپنے عزیز و رشتہ داروں سے ملنے آتے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2600 کلومیٹر طویل سرحد کا بڑا حصہ یعنی گیارہ سو سے زائد صوبہ بلوچستان کے ساتھ لگتا ہے۔ پاکستانی حکومت اس سرحد پر خار دار باڑ لگا رہی ہے۔

مزید پڑھیں: سرحدی تنازعہ: افغان فورسز نے پاکستان کی طرف سے لگائے گئے باڑ کو اکھاڑ دیا

پاکستان کا کہنا ہے کہ پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا کام اسلام آباد کی طرف سے سرحد کے آر پار لوگوں اور اشیاء کی نقل و حرکت کو منظم کرنے کے ساتھ منشیات کی اسمگلنگ اور دہشت گردی کو روکنے کی کوششوں کا حصہ ہے، جو ان کے بقول، علاقائی سلامتی اور پاک افغان تعلقات کی بہتری کے لیے اہم ہے۔

پاکستان یکطرفہ طور پر پاک افغان سرحد کے ساتھ باڑ نصب کرنے کو سرحد کے آر پار عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کو کنٹرول کرنے کا موثر طریقہ سمجھتا ہے جبکہ افغانستان اسے پاکستان کی جانب سے ’ڈیورنڈ لائن‘ کے متنازعہ علاقے کو سرحد میں بدلنے کی کوشش قرار دیتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس عمل سے پاک افغان سرحد پر رہنے والے قبائل مزید تقسیم ہو جائیں گے اور روزگار سمیت دیگر مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا جبکہ پاکستان افغانستان کے ان تحفظات کو مسترد کرتا ہے۔