نواز عطا کی عدم بازیابی سنگین المیہ ہے۔ بی ایچ آر او

235

خوف کے ماحول نے لوگوں کو نقل مکانی کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ بی ایچ آر او کے رہنماؤں کا کوئٹہ میں پریس کانفرنس

بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے رہنماؤں نے کوئٹہ پریس کلب میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان سے سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات سے ہر باشعور فرد واقفیت رکھتا ہے جس میں حالیہ کچھ عرصوں سے خاصی شدت لائی گئی ہیں۔ سیکورٹی فورسز کی جانب سے بلوچستان بھر میں جاری فوجی آپریشنز نے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو شدید متاثر کیا ہے۔بزرگ،خواتین اور بچوں کو بھی دوران آپریشن اٹھا کر لاپتہ کرکے فوجی کیمپوں میں منتقل کیا جاتا ہے اور کئی دنوں تک حبس بے جا میں رکھنے کے بعد زخمی حالت میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کئی خواتین کو ماورائے عدالت قتل بھی کردیا گیا ہے۔ خوف کے ماحول نے لوگوں کو نقل مکانی کرنے پر مجبور کردیا ہے جو انسانی حقوق کی پامالیوں کی بد ترین مثال ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی بد ترین پامالیاں انسانی حقوق کی عالمی اداروں کی خاموشی اور میڈیا کی جانبداری کی وجہ سے آئے روز بڑھتی جارہی ہیں اور اب سیاسی کارکنوں اور انکے اہلخانہ کے علاوہ انسانی حقوق کے کارکنوں کو بھی جبری طور پر لاپتہ کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا جارہا ہے جو بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

بی ایچ آر او کے رہنما ؤں صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج کے پریس کانفرنس کا مقصد ہمارے تنظیم کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری نواز عطا ولد عطا محمد کی جبری گمشدگی کو آپ کے توسط سے ملک کے اعلی اداروں تک پہنچانا ہے تاکہ انسانی حقوق کو اجاگر کرنے والے کارکن کی باحفاظت بازیابی کو ممکن بنایا جاسکے۔ نواز عطا بلوچ کو گزشتہ سال 28 اکتوبر کو رات کے دو بجے کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں واقع ان کے گھر سے درجن سے زائد لوگوں کے ساتھ اٹھا کر لاپتہ کردیا گیا۔ جن میں بیشتر تعداد بچوں کی تھی۔ لیکن آج اس دلخراش واقعے کو ایک سال کا عرصہ مکمل ہوچکا ہے لیکن نواز عطا بلوچ کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ کس حال میں ہے اور کہاں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کا کوئی بھی قانون کسی ملک کے سیکورٹی اداروں کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ بناء کسی ثبوت کے لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کریں اور انکو عدالت میں پیش کئے بغیر ماورائے عدالت قتل کریں۔ لیکن بلوچستان میں لوگوں کو جبری طور پر اٹھا کر لاپتہ کرنا روز کا معمول بن چکا ہے ۔

پریس کانفرنس جاری رکھتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ نواز عطا بلوچ بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے انفارمیشن سیکرٹری اور ایک طالب علم تھے جو ہمارے تنظیم کے پلیٹ فارم سے انسانی حقوق کے لئے کام کررہے تھے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کو اغوا کرکے عدالتوں میں پیش نہ کرکے ریاست عالمی انسانی حقوق قوانین کی مسلسل خلاف ورزی کررہی ہیں۔ ریاست اپنے طاقت کے بل بوتے پر بلوچستان میں سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دی چکی ہے۔ سیاست پر مکمل پابندی سے سماج میں افراتفری کا ماحول جنم لے چکا ہے جو ایک تشویشناک عمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہیں کہ وہ شہریوں کی حفاظت کریں لیکن بلوچستان میں ریاست طاقت کے زور پر لوگوں کو زبردستی اٹھا کر لاپتہ کررہی ہیں ۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال تشویشناک ہے اور اب انسانی حقوق کے کارکنوں کے لئے زمین تنگ کرکے اس صورتحال کو مزید تشویشناک بنایا جارہا ہے جو ایک نیک شگون نہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن شروع دن سے یہ مطالبہ کررہی ہیں کہ اگر نواز عطا بلوچ نے ریاستی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے تو انہیں عدالتوں کے روبرو پیش کریں ۔اگر قانون انہیں قصور وار ٹھہراتی ہیں تو انہیں قانون کے مطابق سزادی جائے لیکن یوں بناء کسی ثبوت کے انسانی حقوق کے کارکنوں کو اغواء کرکے ایک سال سے منظر عام پر نہ لانا سمجھ سے بالاتر ہے جو ریاست کے مشکوک عمل کو ظاہر کرتی ہیں۔

بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے رہنماؤں نے ایشین ہیومین رائٹس کمیشن، ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان ، عالمی انسانی حقوق کے اداروں ، سول سوسائٹی سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی کارکنوں کو درپیش مشکلات اور ان کی بازیابی کے لئے آواز اٹھائیں تاکہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کرنے کی راہ ہموار ہوسکے۔

بی ایچ آر او نے صحافیوں سے بھی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ نواز عطا کی اغوا نماء گرفتاری اور بلوچستان میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کو درپیش مشکلات کو اپنی صحافتی ذمہ داری سمجھ کر کوریج دیں تاکہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچا کر بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکا جاسکے۔