مجید چھوٹا مگر چٹان نما ۔ بیرگیر بلوچ

420

مجید چھوٹا مگر چٹان نما

تحریر۔ بیرگیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مجید وہ پہلا ساتھی تھا جس کے لہو نے ہم سب سے پہلے وطن پر آبیاری کرنے کا عمل اپنایا، مجید جو شرارتی، بےغرض، بے پروا لڑکن پن سے نوجوانی کے طرف گامزن تھا، نہ کسی کا سنتا نہ کسی کو اہمیت دیتا سوائے ان دوستوں کے جو اسکے ساتھ اس مقصد سے جڑے تھے، اسکا صبح و شام انہی ساتھیوں کے ساتھ ہوتا تھا جو ہروقت عمل کا حصہ رہتے۔

مجید نام جس نے مجید اول کو فدائین بنایا، جو اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وطن مادر پر فنا ہو گیا، مجید دوئم جس نے ایک برگیڈ بنا کر وطن فروشوں کے موت کا نام بنا، اس مجید نام کی اہمیت کو سمجھنے والا مجید کثان کیسے اس کی لاج نہ رکھتا۔ مجید جو کم عمری میں سیاست کے داو پیچ سمجھ کر ہر اس عمل کا حصہ رہا جس سے اس نے اپنے مادر وطن کی راہ میں تھوڑی سی بھی کامیابی حاصل کیا۔

مجید شہید حاجی رمضان کا بیٹا اور شہید حئی کا چھوٹا بھائی، جس نے وادی خضدار میں آنکھیں کھولیں جو گھر میں لاڈ و پیار سے بڑا ہوا، مجید جب لڑکپن میں پہنچا تو اپنے من کا مالک بنا، والد کے ڈانٹ کا خوف تھا جو اسے روکے رکھا تھا مگر پرندوں کو اڑنے سے کب تلک روکا جا سکتا تھا۔

مجید خضدار سے حب پھر کراچی تعلیم کے غرض سے بھی بھیجا گیا، اپنے والد کی ہر بات پر من و عن عمل کرتا ہوا، مجید کو نہ حب راس آئی نہ کراچی بہاسکا، اسے سوندھی مٹھی کی خوشبو نے پھر سے اپنی طرف بلایا۔

2007 جہاں ہر طرف آزادی کے نعرے گونج رہے تھے، جہاں وطن مادر کے سپوت دشمن پر قہر بن کر ٹوٹ رہے تھے، وہیں مستقبل کا بندوق بردار سرمچار مجید اپنے تیار ہونے کے مراحل میں تھا۔

مجید بی ایس او آزاد میں شامل ہوکر بروقت ہر کام پر لگا رہتا وال چاکنگ سے بیرک لگانے تک جلسہ جلوس ریلیاں مجید ہر عمل کا حصہ تھا، وہ اپنے یونٹ کا آرگنائزر رہا تھا، جس کے یونٹ میں شہید جاوید شیخ اسکے ساتھ بی ایس او کے کاموں میں مصروف عمل رہتا تھا۔

شہید غلامحمد کے شہادت کے وقت جب حالات بگڑ گئے تو مجید باقی ساتھیوں کے طرح روپوش ہو گیا، مگر پھر جلد ہی باقی ساتھیوں کے طرح خضدار میں اپنے کام سرانجام دیتے گئے۔

جس دور میں ہم یہ سوچتے تھے کے خضدار میں ان اونچی ٹاور یا تاروں پر بلوچستان کا بیرک کیسے لگا رہے ہیں، وہیں مجید اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک اور بیرک لگانے کی تیاریوں میں لگا ہوتا۔

مجید کم عمر تھا، وہ بہت کام کر رہا تھا، وہ کام کے ہنر سے واقف تھا، وہ زندہ ہوتا تو اور کام کرتا اور بخوبی سے اسے انجام دیتا اور محنت کرتا اور سیکھتا سکھاتا، وہ زندہ رہتا سیاست میں بہتر کام کرتا سیاست کے بعد جنگی میدان میں عمل کا حصہ ہوتا دشمن پر وار کرتا دشمن کا درد سر بن جاتا وہ حئی کا ساتھی بن جاتا حئی سے جنگی داؤ پیچ سیکھتا حئی کی طرح دشمن کو نیست نابود کرتا اور پھر خود ایک باحوصلہ بہادر سپاہی بنتا۔

وہ پہچانا جاتا، پہاڑوں کا رخ کرتا وہاں رہتا دوستوں کا ہم کوپہ ہمسفر ہوتا، سختی سہتا اور کندن بن کر نکلتا پھر سے شہر پہاڑ دشت میں دشمن پر وار کرتا لڑتا رہتا، اس آخری لمحے تک جب خضدار کے رابعہ خضداری روڈ پر دشمن اسکی آنکھوں پر پٹی باندھ کر بھی پیٹ پر وار کرکے اسے خضدار سے اٹھا کر بلوچستان کے وادیوں میں امر کردیتا ہے۔

مجید نے شروعات رکھی اس بنیاد کی جس نے اس کے اردگرد ایک روشنی پھیلائی، جس روشنی کو لیکر حئی، پھر حاجی رمضان اس چراغ کو جلائے چلتے رہے، پھر اس چراغ کو دلجان نے تھام لیا اور یوں ہی یہ چراغ منتقل ہورہی ہے اور ہر دؤر میں منتقل ہوتا رہے گا اور یوں ہی مجید کے جلائے شمع کو اسکے بھائی، باپ، ماموں، کزن اور وہ دوست جو مجید کے منزل کے راہی ہیں لئے چل رہے ہیں۔

وہ اب بھی امر ہے، ہر اس ساتھی کی طرح جس نے وطن مادر کی خاطر اپنے جان کا نذرانہ پیش کیا، وہ اب بھی زندہ ہیں ان وادیوں میں جہاں آج بھی اسکے بھائی حئی کی بندوق کی آواز، آزادی کے راہ پر گامزن رہ کر دشمن کے سروں میں چھید کرتے ہوئے نکل رہے ہیں۔

19 اکتوبر 2010 کو دشمن فوج نے مجید ثانی کو انکے دفتر سے اٹھا کر 5 دونوں تک تشدد کرکے وہ سب پوچھنا چاہا جو مجید کو معلوم تھا، مگر مجال کے ایک بھی لفظ بیان کیا گیا ہو 24 اکتوبر کو دشمن فوج اپنے ناکامی سے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیئے کسان سالہ مجید کو آنکھوں پر پٹی، ہاتھ پیچھے بندھے سڑک کے کنارے شہید کرکے چلا جاتا ہے۔

مگر وہی کسان بدن مجید ایک فکر و سوچ بن کر زندہ رہا، ان گولیوں کے بعد وہ ایک عمل بن کر ہر سنگت کے ساتھ ہم کوپہ رہا ہے، تب سے اب تلک اب سے آخری صبح تک وہ امر رہاہے، اس صبح کے بعد اس امن تک جس کا وعدہ لیے اسکے ساتھی شہید جاوید کی شکل میں محو سفر ہیں۔

مجید نے جو بنیاد رکھی اس بنیاد نے دشمن کے حواری اور ریاستی سرداروں کی سکون چھین لیا ہے، خضدار سے شروع ہوتا حب پھر زہری مجید کے سوچ کو لیکر اسے دوسروں میں منتقل کرنے کا عمل ہنوز تا منزل جاری ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔